مارچ 2025ء کے مہینے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے ترسیلات زر کی مد میں جو تاریخ رقم کی، وہ قومی معیشت کے لیے ایک نہایت خوش آئند خبر ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق صرف ایک ماہ میں 4.1 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں، جو ملکی تاریخ کا بلند ترین ریکارڈ ہے۔ یہ اضافہ فروری 2025ء کے مقابلے میں 29.8 فیصد اور گزشتہ سال مارچ کے مقابلے میں 37.3 فیصد زیادہ ہے۔ جولائی تا مارچ مجموعی طور پر 28 ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان پہنچی ہیں، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے سے 33 فیصد زیادہ ہیں۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف پاکستان کے بیرونی کھاتے کو سہارا دینے کے لیے اہم ہیں بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کا وطن سے تعلق جذباتی ہونے کے ساتھ معاشی بھی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بجا طور پر اوورسیز پاکستانیوں سے اظہارتشکر کیا ہے اور ان کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں اور ان کا حکومتی پالیسیوں پر اعتماد حوصلہ افزا ہے۔ ساتھ ہی گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے دعویٰ کیا کہ فارن ایکسچینج اصلاحات نے قانونی ترسیلات کو بڑھاوا دیا ہے، جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی جانب گامزن ہے۔مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے جو پہلے بلندی پرتھی، مانیٹری پالیسی کمیٹی کی توقع کے مطابق مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔
قبل ازیں وزیراعظم ،وزیر خزانہ اور حکومتی معاشی ماہرین معیشت کی مضبوطی اور مہنگائی میں کمی کے دعوے کر چکے ہیں۔یہ دعوے زمینی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔معیشت کے حوالے سے تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان ٹیک آف کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر عوامی بے چینی، مہنگائی کا دباؤ، اور روزگار کے مواقع کی کمی کیوں ہے؟ کیوں نوجوان ملک سے ہجرت کو ہی نجات کا راستہ سمجھتے ہیں؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قیمتوں میں کمی کا عملی اثر تاحال عام آدمی کی زندگی میں محسوس نہیں ہوتا۔ بجلی گیس کے بل، اشیائے خورو نوش کی قیمتیں اور بنیادی سہولیات کی کمی عوام کو بے چین رکھے ہوئے ہے۔
جہاں ایک جانب ترسیلات زر کا یہ تاریخی اضافہ خوش آئند ہے، وہیں ہمیں اس خوش خبری کے پس پردہ حقائق کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے:گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں افراد بیرونِ ملک روزگار یا بہتر زندگی کی تلاش میں گئے۔ اس سلسلے میں ’’برین ڈرین‘‘ کی اصطلاح عام ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان، انجینئرز، ڈاکٹرز، آئی ٹی ماہرین، محققین، اور دیگر پروفیشنلز بڑی تعداد میں ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اگر یہی لوگ پاکستان میں مناسب مواقع، ماحول اور سہولیات کے ساتھ کام کر رہے ہوتے تو نہ صرف معیشت مستحکم ہوتی بلکہ تخلیقی ترقی بھی ممکن تھی۔اس پس منظر میں، صرف ترسیلات زر کو معاشی کامیابی کا پیمانہ قرار دینا سطحی تجزیہ ہوگا۔ بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم وقتی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ، زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر کو سہارا دے سکتی ہیں، مگر پائیدار معاشی ترقی کے لیے داخلی پیداواری صلاحیت، روزگار کے مواقع، صنعتی بحالی، اور برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔
ترسیلات زر کا بڑھنا بلاشبہ خوش آئند ہے، مگر اسے پائیدار ترقی میں بدلنے کے لیے جامع حکمت عملی درکار ہے۔
ہنر مند افرادی قوت کی تیاری: بیرون ملک جانے والوں کو باقاعدہ تربیت، زبان، قانونی طریقہ کار اور عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے۔برین ڈرین کو برین گین میں بدلنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی، ریسرچ، اور تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات لاتے ہوئے ملک میں ماحول ایسا بنایا جائے کہ اعلیٰ دماغ پاکستان میں ہی خدمات انجام دیں۔داخلی معیشت کی بحالی‘برآمدات، صنعتی پیداوار، اور زراعت کو فروغ دے کر معیشت کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔شفافیت اور احتساب‘ اعتماد کی بحالی کے لیے کرپشن، ضیاع اور نااہلی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
معیشت کی حقیقی عکاسی یہی ہے کہ ابھی ایک طویل سفر ہم نے طے کرنا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکاروں کے پنجے سے نجات کے بغیر معیشت کی مضبوطی، ملکی و قومی ترقی اور عوامی خوشحالی صرف خواب ہی رہے گا۔پاکستان وسائل سے مالا مال ہے۔ ان کو مینج کرنے کی مہارت حاصل کریں۔ گزشتہ دنوں منرلز کانفرنس ہوئی منرلز بہت بڑی بات ہے۔ آپ ایک ہی منرل کو لے لیں۔ سب سے کم اہمیت نمک کو دی جاتی ہے۔یہ اگر مہنگا ہے تو مٹی سے زیادہ مہنگا ہے۔اسی ایک منرل سے آپ کی 50 ارب ڈالر کی سالانہ ایکسپورٹ ہو سکتی ہے۔ہر کھانے میں، ہر میڈیسن میں نمک استعمال ہوتا ہے۔
جدید دور میں الیکٹرک انرجی کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ گاڑیاں الیکٹرک پر کنورٹ ہو رہی ہیں۔پاکستان کے پاس بیٹریز میں استعمال ہونے والا مٹیریل وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔چین کے پاس منرلز نکالنے اور ان کو پراسیس کرنے کی مہارت اور صلاحیت دنیا میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو بیٹریز میں منرل استعمال اور درآمد کرتا ہے۔امریکہ کی طرف سے ٹیرف میں اضافوں کے بعد چین نے اس مٹیریل کی امریکہ کو برآمد روک دی ہے۔امریکہ کو فوری طور پر اس کے متبادل کی تلاش ہے۔ پاکستان اس کا بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
ہم وسائل کا درست استعمال کریں۔ اچھے طریقے سے معاملات کو مینج کر لیں۔ اشرافیہ کے اخراجات کم کر دیں۔ اس سے آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے۔ اسی سے خود انحصاری قوم کا مقدر بنے گی۔ یہی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہوگی۔
بلاشبہ مارچ 2025ء میں ترسیلات زر کی مد میں 4.1 ارب ڈالر کا آنا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ لیکن اگر ملک میں معاشی مواقع، حکمرانی کی بہتری، اور انسانی وسائل کی درست رہنمائی نہ کی گئی تو ہم صرف دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنی معیشت کو وقتی آکسیجن دیتے رہیں گے۔ ہمیں وقتی فتوحات پر جشن منانے کے ساتھ ساتھ دیرپا کامیابی کے لیے داخلی استحکام کی طرف بھی قدم بڑھانا ہوگا۔