مولانا رومی کا قول ہے ’’اصل تو ہماری سوچ ہے ورنہ ہم گوشت اور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہیں- انسانی سوچ ہی اسے کامیابی اور ناکامی سے دوچار کرتی ہے-‘‘ سوچنا انسانی جبلت میں شامل ہے- سوچ کبھی مثبت ہوتی ہے اور کبھی منفی- مثبت سوچ کی طرح منفی سوچ بھی ایک ذہنی رویہ ہے جو نفسیاتی نقطہ نظر سے منفی حالات کے ردعمل میں وجود میں آتا ہے- یہ ہمارے شعور میں پروان چڑھتا ہے- منفی سوچ جب بہت طاقت ور ہو جاتی ہے تو ہمارے شعور پر حاوی ہو کر ہمارے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے- اکثر ذاتی تجربات، سیاسی و اقتصادی عوامل اور مایوسی کے جذبات ہماری منفی سوچ کو مزید منفی بنا دیتے ہیں- ناامیدی اور ناکامیاں اسے مزید پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہیں- رائے عامہ میں منفی سوچ کی شرح زیادہ ہو گی تو نتیجے میں غیر شعوری طور پر ہمارے لاشعور میں منفی سوچ زیادہ پروان چڑھے گی-
عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مثبت سوچ ہو گی تو نتائج بھی مثبت ہوں گے مگر ایسا نہیں ہے- بعض اوقات مثبت سوچ کے مثبت اثرات نہیں ہوتے- ایسی صورت میں مثبت اندازِ فکر رکھنے والے کو مایوسی ہوتی ہے اور اس کی سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے اور وہ منفی سوچ اختیار کر لیتا ہے-
بانی پی ٹی آئی کی بات کریں تو انھوں نے جب سے اپنا اندازِ سیاست بدلا ہے، اْن کے اندر منفی سوچ نے جنم لیا ہے- اْن کے لیے آسانیاں ناپید اور مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں- احتساب عدالت نے جب سے انھیں ’’بدعنوان‘‘ قرار دے کر 14 سال قید با مشقت اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے اْن کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا ہے- کہنے والے کہتے ہیں بانی اپنی سوچ منفی نہ رکھتے تو اب تک جیل میں نہ ہوتے- رہائی کا کوئی راستہ نکل ہی آتا مگر منفی سوچ اور منفی طرزِ سیاست نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا- ایسے مقام پر پہنچ گئے جو مشکل ہی نہیں، تکلیف دہ بھی ہے- ایسے بہت سے معاملات جو ملکی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں- پی ٹی آئی نے اْسے سخت نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے- آئی ایم ایف پروگرام قریب تھا تو تحریک انصاف نے آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج شروع کر دیا تاکہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کو روکا جا سکے- اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے غیر ملکی وفود اور سربراہان کی آمد ہو تو اس موقع پر بھی احتجاج اور مظاہروں کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہو، ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کر کے غیر ملکی امداد اور تجارت کو روکا جا سکے-
پی ٹی آئی کا یہ طرزِ عمل بھی رہا ہے کہ قومی سطح کا جب بھی کوئی اجلاس انعقاد پذیر ہوتا ہے، پی ٹی آئی اس کا بائیکاٹ کرتی ہے- حساس اور اہم معاملات پر بھی اْس کا رویہ معاندانہ ہوتا ہے- شاید وہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی ہی نہیں چاہتی اسی لیے ایسا رویہ اختیار کرتی ہے- پی ٹی آئی کا حالیہ چند برسوں سے ریاست مخالف بیانیہ رہا ہے- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی گئی ہے- پی ٹی آئی سوشل میڈیا ونگ نے ریاست مخالف منفی پراپیگنڈے سے جو حشر بپا کر رکھا ہے اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں- جماعت میں موجود ایسے رہنما اور کارکن جو اس ’’بیانیے‘‘کے شدت سے مخالف ہیں، ہرگز اْسے سپورٹ نہیں کرتے- گزرتے وقت کے ساتھ وہ اپنی جماعت اور قیادت سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں- انھوں نے یا تو خاموشی اختیار کر لی ہے یا زیر زمین چلے گئے ہیں۔پی ٹی آئی کی وجہ سے آج ملک میں سیاست کا حال پراگندہ ہے- بہت کچھ ہو گیا، تاہم اسکے باوجود بانی اور دیگر رہنما اپنا طرزِ فکر تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں جس کے باعث اْسے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور وہ تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے- سیاست کی 77 سالہ تاریخ دیکھیں تو اس سے بدترین دن کسی نے نہیں دیکھے- سیاست افہام و تفہیم کا نام ہے- اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی خودکشی کے مترادف ہے- پی ٹی آئی سے ایسی کئی غلطیاں ہوئی ہیں کہ اْسے اب ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا- پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ جس طرح منفی پراپیگنڈے سے قوم میں نفرت کے بیج بو رہا ہے اْسے کسی بھی طرح احسن قدم قرار نہیں دیا جا سکتا-سیاسی جماعتیں دنگا فساد نہیں کیا کرتیں- یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے، بتدریج وہ اْسے تباہی کی طرف لے جا رہا ہے- قیادت کی پارٹی پر گرفت بھی کمزور پڑ رہی ہے، جو صورتحال ڈویلپ ہو رہی ہے ، اْس سے نون لیگ پورا فائدہ اٹھا سکتی ہے- جس طرح کا منظرنامہ نظر آ رہا ہے وہ ظاہر کرتاہے کہ پی ٹی آئی کہیں سیاست سے آؤٹ ہی نہ ہو جائے- غلط پالیسیوں سے اس کا کوئی مستقبل نہیں رہا-پی ٹی آئی نے عیدالفطر کے بعد جس بڑی ملک گیر تحریک کا اعلان کیا تھا، مولانا فضل الرحمن کے عدم تعاون کے بعد وہ ختم ہوتی نظر آ رہی ہے، لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں اتنا دم نہیں کہ کوئی بڑی تحریک چلا سکے- سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو سیاسی کلچر بنا ہوا ہے اْس سے پنجاب اور وفاق میں نون لیگ کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑا- ملک میں سرمایہ کاری، ایکسپورٹ میں اضافے اور کمرشل و ڈومیسٹک بجلی کے بلوں میں کمی سے گھریلو اور صنعتی و تجارتی صارفین نے سکھ کا سانس لیا ہے- اکنامک کے سارے اشاریے ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت صحیح سمت میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے جس سے اْسے استحکام حاصل ہے-
رہی بات پی ٹی آئی کی تو اپنے گورکھ دھندے سے وہ ہرگز باز نہیں آئے گی- بانی کی سرشت میں ہے کوئی نہ کوئی ہنگامہ بپا کیے رکھو- نہ ملک کی پروا ہے نہ ملکی سلامتی کی- بانی کے خلاف کافی کیس انڈر ٹرائل ہیں- قوم 9 مئی کے مقدمات کی بھی منتظر ہے- یہ مقدمات چلتے ہیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا- پی ٹی آئی نے ملک میں جس قسم کی سیاست کو جنم دیا ہے، ملک میں اب اْس کی کوئی گنجائش نہیں- اس طرح کی سیاست نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا اور بہت نقصان پہنچایا ہے- بانی کے اندر شاید وفا ہے ہی نہیں- جو عدم استحکام کا سوچتے ہیں انھیں نشانِ عبرت بننا چاہیے- ہمارے عدالتی نظام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے یہ کون لوگ ہیں- ہرگز بھی اْن کو معافی نہیں ملنی چاہیے جو سیاست کے نام پر عدم استحکام کا گندا کھیل کھیلتے ہیں-