"ذہنی سکون، زندگی پر سکون"

ذہنی صحت کسی بھی شخص کی مجموعی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صرف بیماری سے محفوظ رہنے کا نام نہیں بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور سماجی توازن کو برقرار رکھنے سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے اور لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یہی غفلت سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ ذہنی صحت کی خرابی صرف پاگل پن تک محدود نہیں بلکہ اس میں کئی طرح کے مسائل شامل ہو سکتے ہیں جیسے کہ ذہنی دباؤ، ڈپریشن، پریشانی، اور ذہنی تناؤ کی بیماریاں۔ بدقسمتی سے معاشرتی رویے اور معلومات کی کمی کے باعث اکثر لوگ ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ذہنی صحت کی آگاہی کے ذریعے نہ صرف افراد اپنی حالت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کے مسائل کو بھی سنجیدگی سے لے سکتے ہیں۔ یہ آگاہی معاشرتی سطح پر بہت سے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اکثر لوگ ذہنی صحت کے مسائل پر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ معاشرہ انہیں کمزور یا ناکام سمجھے گا۔ اس صورتحال میں آگاہی مہمات اہم کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ یہ نہ صرف غلط فہمیوں کو دور کرتی ہیں بلکہ متاثرہ افراد کو حوصلہ بھی دیتی ہیں کہ وہ اپنی کیفیت کو بہتر طور پر سمجھیں اور مناسب مدد حاصل کریں۔ ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگ علامات کو جلد پہچان سکتے ہیں اور بروقت علاج کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ اکثر ذہنی بیماریاں ابتدائی مراحل میں کم سنگین ہوتی ہیں اور صحیح وقت پر علاج ہونے سے ان کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ذہنی صحت کا خیال رکھنا جسمانی صحت کے لیے بھی نہایت اہم ہے کیونکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن جیسی حالتیں دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ اس لیے اگر لوگ اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھیں تو ان کی جسمانی صحت بھی بہتر رہ سکتی ہے۔ ذہنی صحت کی خرابی نہ صرف فرد پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اس کے خاندان، دوستوں اور کام کی جگہ پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایک مثبت ذہن رکھنے والا شخص اپنی زندگی میں زیادہ خوشحال، پر سکون اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ کام کی جگہ پر ایسے افراد زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں نبھاتے ہیں، جس سے ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے۔ ذہنی صحت کی خرابی کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں، تاہم چند عام علامات میں شدید اداسی، غیر ضروری غصہ، ضرورت سے زیادہ فکر مند رہنا یا کسی بھی کام میں دلچسپی ختم ہو جانا شامل ہیں۔ بعض اوقات یہ علامات رویے میں بھی ظاہر ہوتی ہیں جیسے کہ لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانا، معمول کی سرگرمیوں میں دلچسپی ختم ہو جانا یا کام اور پڑھائی میں اچانک غیرمعمولی کارکردگی دکھانا۔ جسمانی علامات میں مسلسل تھکن، نیند کے مسائل، سر درد، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا یا معدے کی تکالیف شامل ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ علامات طویل عرصے تک برقرار رہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ فرد کو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ مناسب علاج حاصل کر سکے۔ ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے چند اہم اقدامات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ لوگ اپنے مسائل کو چھپانے کے بجائے ان پر کھل کر بات کریں۔ دوستوں، اہل خانہ یا کسی مشیر سے اپنے مسائل پر بات کرنے سے ذہنی دباؤ میں کمی آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ متوازن طرزِ زندگی اپنانا بھی نہایت اہم ہے۔ متوازن غذا، باقاعدگی سے ورزش اور مناسب نیند ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مثبت سوچ اپنانے سے بھی ذہنی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے کیونکہ مثبت رویہ رکھنے والے افراد دباؤ کا بہتر انداز میں سامنا کر سکتے ہیں۔ اگر کسی فرد کو محسوس ہو کہ وہ اپنی حالت پر قابو نہیں پا رہا تو ماہر نفسیات یا معالج سے مدد لینے میں ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ قدم بیماری کے علاج میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں ذہنی صحت کی آگاہی پھیلانے میں ہمارا کردار بہت اہم ہے۔ اسکولوں اور جامعات میں ذہنی صحت سے متعلق ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس موضوع کو سنجیدگی سے لے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ عوام میں ذہنی صحت کے حوالے سے مثبت پیغام پھیلانے کے لیے مہمات چلائے تاکہ لوگ ذہنی مسائل کو حقیقت سمجھتے ہوئے اس کا بہتر طور پر علاج کر سکیں۔ دفاتر میں ملازمین کو ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے سپورٹ سسٹم فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی کارکردگی پر مثبت اثر ڈال سکیں۔ اس کے علاوہ خاندانوں کو بھی چاہیے کہ وہ کھلے دل سے ایک دوسرے کے مسائل سنیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کریں جس میں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا موقع ملے۔ پاکستان میں ذہنی صحت کو درپیش مسائل خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ذہنی صحت کے علاج کے مواقع نہایت محدود ہیں۔ ثقافتی دباؤ، مالی مشکلات اور خاندانی جھگڑے جیسے عوامل اس صورتحال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ ذہنی صحت کی بہتری کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ذہنی صحت کے مراکز کا قیام عمل میں لائے، اسپتالوں میں ماہر نفسیات کی تعداد بڑھائی جائے اور عوامی آگاہی مہمات کو فروغ دے تاکہ لوگ اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ ذہنی صحت کی آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایک صحت مند دماغ ہی صحت مند زندگی کی بنیاد ہوتا ہے۔ ہمیں بطور معاشرہ اپنی سوچ بدلنی ہوگی تاکہ ذہنی مسائل کا سامنا کرنے والے افراد کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کا ساتھ دیا جا سکے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے آس پاس موجود افراد کی ذہنی صحت پر توجہ دے، کھل کر بات کرے اور مدد کی پیشکش کرے۔ یاد رکھیں، ذہنی صحت کا خیال رکھنا کسی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ مضبوطی اور سمجھداری کی علامت ہے۔ آئیے، ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں تاکہ ہم سب ایک خوشحال اور پرسکون معاشرے کا حصہ بن سکیں۔

ای پیپر دی نیشن