حسد کے معاشرے پر اثرات

  حاسد اس شخص کوکہتے ہیں جو دوسروں کی نعمتوں پر جلنے والا ہو۔ وہ یہ نہ بردا شت کرسکے کہ کسی کو معاشرے نے عزت دی، اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ذہانت، صلاحیت، مال، علم، دین، حسن ودیگر نعمتوں سے نوازا ہے۔ بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آ پہنچتی ہے کہ حاسد ذاتی طور پر محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آجاتاہے۔ اس کی کیفیات کا اظہار کبھی اس کی باتوں سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا عمل سے اندرونی جذبات و اِحساسات کی عکاسی کرتا ہے۔حسد کی کیفیت جب تک حاسد کے دل ودماغ تک محدود رہے ، محسود کے لیے خطرہ کا باعث نہیں بنتی بلکہ وہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبالِ جان بنا رہتا ہے اور یوں وہ اپنی ذات کا خود ہی بڑا دشمن بن بیٹھتا ہے، لیکن جب وہ اپنی جلن کوسرعام ظاہر کرنے لگے تو یہی وہ مقام ہے جس سے پناہ مانگنے کے لیے خالق ارض و سمائ￿  نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔ ترجمہ’’(میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے اور ایک اور جگہ فرمایا ’’کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کواپنے فضل سے عطا کیا ہے''مذکورہ بالا آیات میں حسد کی بات کی گئی ہے جو دلوں تک محدود رہتا ہے اور کینہ وبغض کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے،لیکن سورہ فلق میں حسد کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ جب وہ حسد کا عملی مظاہرہ کرنے لگے۔ حسد کی مذمت میں نبی اکرم ؐسے مختلف اَحادیث مروی ہیں ۔حسد کی جڑ اس فانی دنیا کی محبت ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس ملعون و مردود قرارپایا تھا۔ ایسا کردار و مزاج رکھنا در حقیقت ابلیس کے نقش قدم پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد اللہ کے فیصلے کونہیں بدل سکتا۔
ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کامجموعہ ہے۔ اپنے کردار و مزاج میں خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت و تعمیری سرگرمی ہے، لیکن اگر اپنی خامیوں کی اِصلاح کی بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا کڑھنا شروع کردے تویہ حسد کا پیش خیمہ بن جاتاہے۔ حسد کے اندر اجارہ داری کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ غرور و تکبر میں مبتلا شخص ہر چیز پراپنی اجارہ داری سمجھتا ہے۔ خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر کوئی اور انسان اس کے برابر آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بڑا نہ ہوجائے یا اگر اْس سے کم حیثیت کا شخص اس کے برابر آجائے یا اس سے آگے بڑھ جائے تو وہ اس کی بلندی کو برداشت نہیں کرپاتا اور حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اْسے اپنی حیثیت و مقام کھو جانے کا خو ف لاحق ہوجاتا ہے۔ دفتری امور میں سینئر افسران کو جھوٹ بول کر اور  آگر اسیکرپشن بھی کرنا پڑے تو حسد کے عمل کو پورا کرنے کے لیے کر گزرتا ہے۔حاسد شخص کسی کا خیر خواہ اور دوست نہیں ہو سکتا وہ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔  مشرکین مکہ کا رسول اللہ?سے حسد اسی نوعیت کا تھا۔ علم وفن میں برتری کی خواہش بعض اَوقات انسان اپنے فن، علم، حیثیت، عہدے، دین اور صلاحیتوں میں ممتاز ہوتا ہے، اور جب اْسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور علاقے یا جگہ میں اس کی طرح کا ایک اور انسان موجود ہے تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات نمو پانے لگتے ہیں۔یا اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور وہ اْس فرد کے مرجانے یا اس کی نعمت کے زائل ہوجانے کی تمنا کرنے لگتا ہے اور یہ جذبات حسد کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔بغض وعناد  و عداوت بھی حسد کی وجہ بن جاتے ہیں۔ انسان کسی کے خلاف دل میں غصہ یادشمنی پال لے اور اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو وہ کینہ بن جاتا ہے۔اس سے انتقام کا جذبہ جنم لیتاہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لیے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ عثمان بن صالح بغدادی، ابوعامر، ابن عبد الملک بن عمرو، سلیمان بن بل، ابراہیم بن ابواصیب، جدہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے یا فرمایا کہ سوکھی گھاس کو کھا لیتی ہے حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا 
ہے۔ جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے لیکن رشک میں وہ نعمت محسود  (جس سے حسد کیا جائے)سے چھن جانے  یا اس نعمت کو  نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک  ایک مثبت جذبہ ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ، حسد (رشک) صرف دو شخصوں پر (مستحسن) ہے، ایک اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالی نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے ہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسرآتا تو میں بھی اسے اسی طرح صرف کرتا۔
حسد کے بے شمار دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں۔
حسد نفرت کی آگ میں جلاتا ہے۔ حسد کئی  نفسیاتی امراض کا باعث ہے جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری، چڑچڑا پن وغیرہ، حسددشمنی  اور دشمنی فساد کی جانب لے جاسکتی ہے جس سے  گھر اورمعاشرے میں فساد پھیل سکتا ہے۔حسد دیگر اخلاقی گناہوں کا سبب بنتا ہے جن میں غیبت، بہتان، تجسس اور جھوٹ شامل ہیں۔حسد آخرت میں اللہ کی ناراضگی کا موجب ہے۔ محرومی یا احساسِ کمتری،خدا کے فلسفہ آزمائش سے لا علمی،نفرت و کینہ، غرورو تکبر ،منفی سوچ،دیگر اسباب میں  اس کا علاج یہ ہے کہ حتی الامکان ان لوگوں کے بارے میں سوچنے سے گریز کریں جو آپ سے کسی معاملے میں بہتر پوزیشن میں ہیں اور اگر کوئی خیال آجائے تو اپنے سے نیچے کے لوگوں پر تفکر کریں ۔نیچے والوں پر غور کرنے کا مطلب یہ نہیں  مال و دولت کے لحاظ سے ہی موازنہ کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن