دل جلتا ہے، جب حکومت کی کارکردگی اچھی نہ ہو، اور لوگ تعریف کر رہے ہوں جبکہ کسی کی اچھی ’’کارکردگی‘‘ پر تعریف کرنا بھی کوئی بری بات نہیں۔ لیکن بُری بات کا دفاع کرنا بھی اچھی بات نہیں ہوتی۔ پاکستان میں چونکہ پاپولیشن بہت زیادہ ہے اس لیے مسائل بھی اَن گنت ہیں۔ غربت، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری سے لے کر امن و امان اور چوری چکاری کی وارداتوں تک ہمیں بہت کچھ سہنا پڑتا ہے ۔ ہر حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کا تحفظ کرے۔ غربت و افلاس کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے لیے کردار ادا کرے۔ لیکن حکومتوں کو کم ہی فعال کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا رہائشی ہوں۔ کیپیٹل لاہور میں سکونت کے باعث ادراک ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت صوبے کے نظم و نسق کو کیسے چلا رہی ہے ۔ کیا سب ٹھیک چل رہا ہے۔ ٹھیک ہو رہا ہے؟ یا کافی معاملات کو ابھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے؟
پنجاب میں کئی ادوار آئے۔ بہت سی جماعتوں نے یہاں حکومت کی لیکن جب ہم پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے (پنجاب) میں پہلی بار ایک خاتون کی حکمرانی کو دیکھتے ہیں تو صوبے کے سابق وزرائے اعلیٰ سے مسندِ حکمرانی کا موازنہ کرنا پڑتا ہے۔
ایک بڑے صوبے کا انتظام و انصرام چلانا کوئی معمولی بات نہیں۔ لیکن مریم نواز نے بحیثیت وزیراعلیٰ ایک سال کے قلیل عرصے میں اپنی بے مثال کارکردگی کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ مریم سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی بڑی صاحبزادی ہیں۔ لاہور کالج فار وویمن میں تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد ارادہ تو سیاست میں آنے کا نہیں تھا۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے جب نواز شریف کو اقتدار سے الگ کر کے ملک میں جابرانہ تسلط قائم کیا۔ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔ آئین کو معطل کر دیا۔ تو یہی وہ وقت تھا جب مریم نے والد میاں محمد نواز شریف اور چچا میاں محمد شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ سیاست میں آئیں گی اور والد کی سیاست کو لے کر آگے چلیں گی۔ انہوں نے انتہائی مشکل وقت میں جبر کے آگے کھڑے ہونا پسند کیا۔ ایک خاتون ہوتے ہوئے بھی بڑی جرأت و استقامت کے ساتھ جبر کے نظام کو للکارا، ثابت کیا کہ وہ آہنی عزم کیحامل ہیں۔ انہوں نے سیاسی حریفوں سے بھی اپنی سیاسی حیثیت منوائی اور تسلیم کر لی گئیں کہ سیاست میں اُن کا وجود ایک حقیقت ہے۔
مریم نواز کو بیٹھے بٹھائے ایک بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ ایسے ہی نہیں مل گئی بلکہ انہوں نے ایک گھریلو خاتون اور سیاستدان سے وزیراعلیٰ بننے تک کے سفر میں کئی مراحل طے کئے۔ جیل کاٹی، حالات کی سختیاں برداشت کیں۔
مریم نواز انتہائی سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ بولنے کا ڈھنگ جانتی ہیں۔ اسی لیے اُن کے ’’فالورز‘‘ کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ تقریر کرتی ہیں تو عوام کے دل جیت لیتی ہیں۔ پنجاب میں مریم نواز نے ویلفیئر کے کئی کام شروع کر رکھے ہیں۔ اُن کی ڈویلپمنٹ پر بھی بہت زیادہ توجہ ہے۔ جس میں انہیں اپنے والد میاں محمد نواز شریف کی مکمل رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہے۔ پنجاب کا نظم و نسق چلانے کے لیے مریم کو تجربہ کار افراد کی بھی ایک بہترین ٹیم میسر ہے۔ مریم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت کم آرام کرتی ہیں۔ فیملی کو بھی وقت نہیں دے پاتیں۔ اُن کی پوری توجہ دن بھر کے کاموں پر مرکوز رہتی ہے۔ صحت، تعلیم اور آئی ٹی کے شعبوں میں انہوں نے بہت سی اصلاحات کی ہیں۔ ضلعی ہسپتالوں کی اَپ گریڈیشن کے علاوہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پر سینکڑوں سکولوں کو بھی اَپ گریڈ کیا گیا ہے۔ ذہین طالب علموں کے لیے اندرون اور بیرون ملک سکالر شپ کا اہتمام کیاہے۔ حال ہی میں ’’دھی رانی‘‘ کے نام سے بھی پنجاب میں ایک نیا پروگرام متعارف کرایا ہے۔ جس کے تحت غریب اور مستحق گھرانوں کی بچیوں کی شادی کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے نقد رقم اور جہیز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
کبھی حریف انہیں پارٹ ٹائم سیاستدان سمجھتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مریم سیاست میں کبھی اپنا مقام نہیں بنا سکیں گی لیکن حالات اور وقت نے مریم نواز کو اتنا کندن بنا دیا کہ اب وہی حریف انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ مریم سابق وزیراعظم کی بیٹی ضرور ہیں لیکن انہوں نے اپنا مقام خود تلاش کیا ہے۔ بطور وزیراعلیٰ اُن کی ایک سال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ دیگر صوبوں سے پنجاب کا موزانہ کریں تو پنجاب میں زیادہ ترقیاتی کام دیکھنے میں آئیں گے۔عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کیا جا رہا ہے۔ جس پر مریم کو ناز ہے۔ پیسے کا صحیح مصرف ہو رہا ہے۔
2016ء سے قبل مریم نواز عملی سیاست کا حصہ نہیں تھیں۔ اُس وقت اُن کی زیادہ توجہ اپنے والد کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا ونگ کو فعال بنانے اور یوتھ کو متحرک کرنے پر مرکوز رہی۔ تاہم جیسے ہی پاناما کا اسکینڈل سامنے آیا اور اُن کے والد کو سپریم کورٹ کے حکم کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو مریم، و الد کی سیاسی میراث کو لے کر آگے چلیں انہیںپھر سیاست میں بہت زیادہ سرگرم اور متحرک پایا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے مزاحمتی بیانیے کی عوام میں ترجمانی سے لے کر جیل جانے، جماعت کا چیف آرگنائزر ، نائب صدر بننے جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران مزاحمتی بیانیے کو ترک کرنے سے لے کر وزارتِ اعلیٰ کی کرسی تک کا سفر بہت تیزی سے مکمل کیا۔
ایک سینئر صحافی و تجزیہ کار کا کہنا ہے’’ابتدا میں مریم نواز سیاسی جانشینی کے لیے نواز شریف کا پہلا انتخاب نہیں تھیں۔ وہ کبھی پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی بھی پسندیدہ نہیں رہیں۔ پھر ایسے میں مریم نواز پاکستان کے ساڑھے بارہ کروڑ آبادی والے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے میں کیسے کامیاب ہو گئیں؟ یہ جاننے کے لیے اُن کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالنی پڑے گی۔
مریم نواز کے سیاست میں کردار کے حوالے سے سابق وزیراعظم میاں محمد نوا ز شریف کے خیال میں تبدیلی کی بنیاداُن دنوں پڑی جب 1999ء کے مارشل لاء کے بعد شریف خاندان کو ملک بدر کیا گیا اور انہیں سعودی عرب جانا پڑا۔ یہ وہ دور تھا جب سعودی عرب میں نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز شریف اور بیٹی مریم سے گھنٹوں سیاست پر بات کرتے۔ کلثوم پہلے ہی سے نواز شریف کی سیاسی فیصلہ سازی پر اپنا اثر رکھتی تھیں۔ نواز شریف ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ کلثوم نواز نے ہی مشورہ دیا کہ مریم میں بہت زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ اور سیاست کا بہت زیادہ ادراک رکھتی ہیں۔ لہٰذا انہیں سیاست میں متحرک کیا جائے۔
ایک اور سینئر صحافی کہتے ہیں مریم کو اپنا ’’سیاسی کردار‘‘ حالات کی وجہ سے نبھانا پڑا۔ تاہم جلا وطنی کے دوران اور ملک بدری ختم ہونے پر پاکستان آنے کے بعد بھی مریم نواز نے عملی سیاست سے خود کو دور رکھا۔ تاہم نواز شریف نے مریم نواز کی سیاسی سوجھ بوجھ کو بھانپ لیا تھا۔ اس لیے جب 2013ء میں وفاق میں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو مریم نواز کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مقرر کر دیا گیا تاہم وہ زیادہ عرصہ اس عہدہ پر متمکن نہ رہ سکیں۔ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے اُن کی تعیناتی کے خلاف رٹ پٹیشن پر ہائی کورٹ نے اس تعیناتی کو خلاف قانون قرار دے کر اس عہدہ سے الگ کر دیا۔
نواز شریف کو جب دوبارہ اقتدار سے الگ کیا گیا اور پنجاب میں جی روڈ پر سفر کرتے ہوئے جگہ جگہ جلسے کئے تو اُن کے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو بڑی پذیرائی ملی۔ اس موقع پر مریم نواز نے بھی عوام میں جا کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کی ترجمانی شروع کی تو انہیں بھی مقبولیت اور پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔ جس نے ایک سیاستدان کی حیثیت سے وزیراعلیٰ بننے تک کے سفر میں اُن کے لیے راہ ہموار کی جبکہ گزشتہ پونے دو سال سے وہ اپنے حکومتی امور بڑی تندہی سے سرانجام دے رہی ہیں۔