نگرکوٹ میں ہمالیہ کی اوٹ سے طلوعِ آفتاب کے نظارے کو روح کی گہرائیوں میں سمونے کے بعد واپسی کے وقت ہم نے سردی کے باعث منہ سے بھاپ کے مرغولے نکالتے ہوئے لرزتے ہونٹوں سے کافلے جی کی خدمت میں ایک احمقانہ مطالبہ پیش کیا:’’چائے ملے گی؟‘‘بھائی جمیل ہنس پڑے کہ اس ویرانے میں جہاں میلوں کے رقبے میں وہی دس پندرہ آدمی پہاڑ کی چوٹی پر تھے بھلا چائے کی خواہش کا کیا تُک تھا؟تاہم کافلے جی نے ہماری شوخی کوسنجیدگی سے لیا اور ہمیں یقین دلایا کہ کچھ کرتے ہیں۔ہم دونوں حیران تھے کہ یہ کیا کریں گے__نہ آگ،نہ پانی،نہ پتی،نہ دودھ،نہ شکر،نہ برتن۔پھر یہ چائے کا بندوبست کیسے کریں گے؟کافلے جی فنکاروں کے طائفے کے پاس گئے اور اُن سے اپنی زبان میں کچھ بات کی۔تھوڑی دیر میں ایک رقاص چائے کی بڑی سی کیتلی لے آیا جس کے نیچے دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی بندھی ہوئی تھی۔وہ چار پیالیاں بھی ساتھ لایا۔وہ لوگ یہ انتظام اس لیے کرتے ہیں کہ پہاڑکی چوٹی پرپہنچ کرخود بھی چائے پییں اورکوئی بھولا بسرا سیاح آنکلے تو اُس کے ہاتھوں من مانی قیمت پر بیچیں۔یقین جانیے اُس وقت چائے کا ہر گھونٹ ایسا لگا جیسے آبِ حیات گلے سے اتر رہاہے۔رگ وپے میںطاقت اور حرارت کی لہر دوڑ گئی اور جی چاہا کہ ایک بار پھر سیڑھی والے کنویں پر چڑھ جائیں۔ہم نے کافلے جی سے پوچھا’’انھیں اتنے پیسے دینے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے مسکرا کر کہا’’مجھے بھی تو کچھ خدمت کا موقع دیجیے‘‘حالانکہ وہ بچارے تن،من سے ہماری خدمت میںمصروف تھے اور اب اس میں دھن بھی شامل ہوگیا تھا۔ پہاڑ سے واپسی کا سفر فرحت بخش تھا۔روشنی میںوادی کو دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ جنت کا کوئی قطعۂ اراضی ہماری زمین پر لاکر رکھ دیا گیا ہے__جو پہاڑ آتے وقت ہمارے بائیں جانب تھے اب وہ دائیں جانب چلے گئے تھے۔اُن میں جگہ جگہ برف کی چادریں چپکی ہوئی تھی۔ وادی میں ہریالی کو برف نے ڈھانک رکھا تھا۔مگر کہیں کہیں ہریالی سرکشی پر تُلی ہوئی تھی۔ چشمے خشک تھے یعنی برف سے منجمد تھے اور اُن کا اپنا ہی حُسن تھا۔ڈھلان کے سفر میں جھٹکے زیادہ تھے لہٰذا ہم نے جِیپ میں لگے ہوئے ہینڈبار (آہنی پائپ )کو مضبوطی سے پکڑرکھا تھا۔ڈرائیور نے بتایا کہ یہ سفر چڑھائی سے زیادہ ’’رِسکی‘‘(خطرناک)ہے اس لیے کہ یہ بریک، گئیر،کلچ اوراسٹیرنگ پر کنٹرول کی خصوصی مہارت چاہتا ہے۔تقریباً ایک گھنٹے بعدہم ’’سطحِ زمین‘‘پر آئے تو سب نے اطمینان کا سانس لیا۔صبح آٹھ بجے کے قریب ڈرائیور نے ہمیں ہوٹل چھوڑا جہاں سب سے پہلے ہم نے ناشتہ کیااور پھر گہری نیند لے کر رات کی کسر نکالی۔پروگرام کے مطابق ٹھیک ڈھائی بجے کافلے صاحب پھر آ موجود ہوئے۔اب وہ ہمیںکٹھمنڈوشہر کی سیر پر لے جارہے تھے۔ اس شہر میں آپ کو قدم قدم پر مندر ملے گا اور ایک سے ایک لاجواب!پہلے ہم نے ایک تین منزلہ خوبصورت مندر دیکھا جس کا نام’’کاٹھومنڈپ‘‘ ہے۔یہ پورا کا پورا ایک درخت کی لکڑی سے بنایا گیا ہے۔اس میںلکڑی کا جو کام ہے اس کی مثال دنیابھر میں شاید ہی کہیں ملے۔لکڑی کی دیواروں پردل کش نقش و نگار دیکھ کرباہرسے آنے والے لوگ یہاں کے فنکاروں کی کاریگری پر اَش اَش کراٹھتے ہیں۔مندر کی دیواروں میں چھوٹے چھوٹے طاق تراشے گئے ہیں جن میں چراغ روشن تھے۔ چوبی چھت پربھی پھول بُوٹے بنے ہوئے تھے اور تیل سے جلائے ہوئے قمقمے روشنی بکھیر رہے تھے۔برقی روشنی کی ممانعت تھی۔مندر کے مرکزی کمرے میں ایک چوکی پر لکڑی کے بھگوان براجمان تھے۔اُن کا ایک ہاتھ آشرباد کے انداز میں اٹھا ہوا تھا ۔زائرین پہلے اُن کے چرنوں میں گیندے کے پھول ڈال کر مٹھائی رکھتے اور پھراٹھے ہوئے ہاتھ کے نیچے جھک کر آشرباد لیتے۔مندر میںمکمل نظم و ضبط تھاحالانکہ وہاں کوئی خادم یا سیکیوریٹی گارڈنظر نہیں آیا۔ ’’کاٹھو‘‘بمعنی لکڑی اور’’ منڈپ‘‘بمعنی شامیانہ،اس مندر کامناسب ترین نام ہے۔یہی ’’کاٹھومنڈپ‘‘یعنی لکڑی کا شامیانہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدل کرکٹھمنڈوہوگیا جو نیپال کا دارالحکومت ہے۔ہمارے یہاں اسے غلط طور پر کھٹمنڈو(کھٹ+ منڈو)کہا جاتا ہے جبکہ صحیح نام ’’کٹھمنڈو ‘‘(کٹھ+ منڈو)ہے۔کٹھمنڈوکادوسرا زبردست مقام کماری دیوی کا محل ہے جسے ’’کماری گھر‘‘کہا جاتا ہے۔کماری ہندی زبان میں کنواری کو کہتے ہے۔نیپال کے بدھ اور بہت سے ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ’’کماری دیوی‘‘ایک روحانی وجود ہے جو نسوانی صورت میں نیپال کے بدھ مت کی شکیہ ذات کی کسی تین سالہ بچی کے جسم میں سرایت کرجاتا ہے جس کے بعد اسے مقدس حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔اس کی پوجاہوتی ہے اور وہ لوگوں کی حاجت روابن جاتی ہے۔اسے اس کے خاندان سے الگ کرکے ’’کماری گھر‘‘میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ گہرا میک اپ چڑھائے،سرخ ساڑھی باندھے اوربھاری گہنے پاتے پہنے بیٹھی رہتی ہے۔اس کی اُس وقت تک پوجا ہوتی ہے جب تک اس کو پہلا حیض نہیں آتا۔پھر گویا اس کا’’کنوارپن‘‘ختم ہوگیااور وہ پوتّر(پاک)نہیں رہی۔اگر وہ شدید بیمار ہوجائے یا بڑی مقدار میں اس کے جسم سے خون کا اخراج ہوجائے تب بھی کماری کے منصب سے برطرف تصور ہوگی۔اب نئی کماری کی تلاش شروع ہوتی ہے۔آواگون(تناسخ) کے عقیدے کی رُو سے یہ ہندوئوں کی دیوی تیلجو کا دوسرا جنم ہوتاہے۔کماری کا انتخاب بہت تلاش و جستجو کے بعد عمل میں آتا ہے۔اسے بہت سے جسمانی،اعصابی اور جذباتی امتحانوں سے گزرنا ہوتا ہے۔اس کی ران ہرن کی طرح اور سینہ شیرنی جیسا ہونا چاہیے...جب وہ اس معیار پر پوری ا ترتی ہے تو اسے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بہادر اور نڈر ہے۔اس کے سامنے ایک بھینس کاسر تن سے جدا کیا جاتا ہے۔بچی رودیتی ہے تو وہ کماری نہیں مانی جاتی۔کبھی کبھار بکری،مرغی،بطخ حتٰی کہ انڈے سے بھی کام چلا لیا جاتا ہے۔ہم نے کافلے جی سے پوچھا ’’انڈے کی قربانی کیسے کرتے ہیں؟‘‘ بولے’’بس پھوڑدیتے ہیں۔‘‘جب وہ تمام آزمائشوں سے گزرجاتی ہے تو اسے جلوس کی شکل میں اپنے گھر سے ’’محل‘‘لایا جاتا ہے۔اس کے والدین اور عزیزواقارب اس اعزاز پر فخر کرتے ہیں۔یہ محل شہرکے وسط میں واقع ہے۔کماری دیوی کو محل سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔سال میں صرف تیرہ مرتبہ وہ مخصوص تہواروں کے موقعے پراپنی’’قید‘‘سے باہر نکل سکتی ہے۔جب وہ مخصوص اوقات میں اپنے دربار میں آتی ہے تو عورتیں،مرد،بوڑھے، جوان سب اسے سجدہ کرتے ہیں اور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ ہروقت ایک مخصوص نگہداشت میں رہتی ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ دیوی دیوتا تو دوسروں کی نگہداشت کرتے ہیں لیکن یہاں دیوی کی نگرانی کی جاتی ہے۔دیوی منتخب کرنے کی روایت شاہی خاندان سے منسلک تھی لیکن2008ئ میں ہندوسلطنت کے خاتمے پر جمہوری ملک میں بھی یہ رسم جاری رہی۔(ہم1988ئ میں وہاں تھے۔)وہ بچاری تعلیم سے بھی محروم رہتی تھی لیکن اب نیپال کی سپریم کورٹ کے حکم پر اس کے لیے اس کے محل ہی میں تعلیم کا بندوبست کردیا گیا ہے۔جمہوریت کے آنے پر ایک فرق یہ پڑگیا ہے کہ بچوں کے حقوق کی تنظیموں نے اس صدیوں پرانی رسم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس رسم کے تحت منتخب ہونے والی بچی کا بچپنا چھین لیا جاتا ہے۔آخر اس ظلم پرانسانی ضمیر کیوں خاموش ہے؟کماری کے منصب سے ہٹنے کے بعد معاشرے میں گھل مل جانا اس کے لیے ایک کٹھن مرحلے سے کم نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ ایک دم ہیرو سے زیرو کے درجے پر گرجاتی ہے۔معاشرہ اس کے لیے لوگوں کے ایک غیرمانوس گروہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔جہاں تک لفظ’’نیپال‘‘کا تعلق ہے اس کے بارے میں دو نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔اول یہ کہ یہ دو مقامی الفاظ ’’نَے‘‘بمعنی ’’سادھو‘‘اور’’پال‘‘بمعنی’’حفاظت‘‘کامرکب ہے یعنی وہ جگہ جسے سادھوئوں کا تحفظ حاصل ہو۔دوسرا نظریہ تبتی ہے جس کے مطابق ’’نَے‘‘ بمعنی’’گھر‘‘اور’’پال‘‘بمعنی’’اُون‘‘اس کے مآخِذ ہیں اور معنی ہیں اُون کا گھر۔یہ نام اس مقام کا اس لیے پڑا کہ کسی زمانے میں یہاں بھیڑوں کے بڑے بڑے ریوڑپالے جاتے تھے۔شروع میں نیپال ایک چھوٹا سا شاہی علاقہ تھا جس میں پرتاپ مَلّا کے محلّات تھے۔اس خاندان نے یہاںتیرھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔آخری مَلّاحکمران کاانتقال1482ئ میں ہوا تھا جس کے بعد اس کی سلطنت اس کے ورثا میں تقسیم ہوگئی۔اس خاندان کا مکمل خاتمہ5ستمبر1768ئ کو گورکھا بادشاہ پرتھوی نرائن شاہ نے کیا جس نے پورے ملک کا نام نیپال رکھ دیا۔