عقل ، زبان اور انسان 

ارسطو سے منسوب ایک کلاسِک یونانی فقرہ Zoon Logon Echon جس کا مطلب عقل و منطق رکھنے والا حیوان (rational being )   ایک خرد مند وجود ۔ یہ جملہ انسان کے عقلی و استدالالی پہلو کو ظاہر کرتا ہے اور نطق ِانسانی بھی اس اصطلاح کا بنیادی جزو ہے ۔ارسطو نے ہی انسان کو سماجی  حیوان  قرار دیا تھا ۔سماجی شناخت اور تہذیب و ثقافت کی تشکیل و ارتقا میں زبان کلیدی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح انسانی تجربات اور سماجی تعاملات کے بنیادی پہلو بھی زبان سے ہی وابستہ ہیں ۔ زبان کا بنیادی فریضہ ترسیل ِمعنی ہے۔ درست الفاظ کا انتخاب ، اندازِ تکلم اور پس پردہ متحرک فکر مؤثر ابلاغ کو یقینی بناتی ہے ۔ مکالمہ ( dialogue )اور کلامیہ ( Discourse )لسانی مواصلات کی بنیادی اور کارآمد اشکال ہیں ۔ ان کا سیاق و سباق چاہے کچھ بھی ہو دونوں کا مقصد موثر اور بامعنی رابطہ قائم کرنا ہے ۔ ترسیل ِمدعا کے لیے ترتیب اور معقو لیت کا ہونا بے حد ضروری ہے جو  عقل و استدال کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ فلسفیانہ بحث سے قطع نظر زبان  کے اس پہلو کو عالمی اور مقامی تناظرات میں دیکھا جائے تو عجیب سی صورتحال سامنے آتی ہے ۔ مفہوم رسانی کے انداز وقت کے ساتھ بدلتے جا رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ معاشرے کی بات کی جائے تو بلاغتِ کلام میں انسانی ذہانت کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کا عمل دخل بھی نظر آتا ہے۔ مختلف chat bot چیٹ بوٹ اور ورچوئل اسسٹنٹ جیسے Siri، Alexa، وغیرہ مؤثر، اور خودکار طریقوں سے معانی کی  تفہیم اور ترسیل کو ممکن بنارہے ہیں ۔انسانی ذہانت زبان کے تخلیقی اور پیچیدہ استعمال کو ممکن بناتی ہے مگر اس عمل میں جدت اور ترقی کے نئے نئے راستے  Ai یا مصنوعی ذہانت کی بدولت ممکن ہوتے جارہے ہیں ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی حالت اس معاملے میں کافی مخدوش  ہے ۔ تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے ارسطو نے انسان کے لیے درج بالا فقرہ  کہا اور دور حاضر کے معروف  فلسفی اور تاریخ دان  یووال نوح ہراری Yuval Noah Harari عقل ،منطق اور زبان کو انسانی تہذیب کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ ہراری کا ماننا ہے کہ انسانی زبان نہ صرف حقیقی پیش آنے والے تجربات بیان کرتی ہے بلکہ غیر حقیقی تصورات اور خیالات کو بھی بیان کرتی ہے۔ جس کی اعلیٰ ترین شکل ادبی اور دیگر تخلیقات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ تخلیقی عمل کے زریعے ہی مختلف قصے کہانیاں سماجی نظام کا حصہ بنے اور انہی خیالی تصورات کی وجہ سے انسان پیچیدہ سماجی ڈھانچوں کی تشکیل میں کامیاب ہوا  ۔  عقلیت پسند سماج قصے کہانیوں کے لیے الگ شعبہ مختص کیے ہوئے ہے  ۔ ہمارے معاشرے کی بات کی جائے تو محدود پیمانے پر ہونے والے روزمرہ معمول کے مکالمہ جات ہوں یا وسیع پیمانے پر  سیاسی سماجی ، ادبی اور  دیگر عوامی  گفت و شنید کاذکر ہو اکثر اوقات کہانی پن کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور صورتحال غیر موثر ، بے معنی اور غیر تعمیری نوعیت کی ہوتی ہے ۔سماجی سطح پر بحث برائے بحث کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے احترام رائے کا فقدان اور بلاجواز اختلافات نے صحت مند اور نتیجہ خیز مکالمے کے راستے بند کر دیے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہی گھسے پٹے فقرے بیانیے اور نقطہ نظر مختلف قسم کی ملمع کاری کے بعد سامنے آتے رہتے ہیں ۔ پاکستان جیسے پولرائزڈ معاشرے میں سیاسی ، مذہبی، سماجی اور ثقافتی تفریق موجود  ہے۔ اس اختلاف و تضاد کو کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی طرف سے امداد فراہم کی جاتی ہے  تاکہ اجتماعی توانائی کو ناکارہ کیا جا سکے ۔ اجتماعی قوت اور استعداد کو ضائع اور بے کار کرنے کا سب سے آسان طریقہ عوام کو غیر ضروری اور غیر منطقی مباحث میں مشغول رکھنا ہے ۔ ہر وقت کسی غیبی امداد کے منتظر رہنے سے بہتر ہے اپنی ودیعت شدہ فطری عنایات کا بھرپور استعمال کیا جائے ۔ ان فطری عنایات میں عقل سرفہرست ہے اور اس کے اظہار کا بنیادی وسیلہ زبان ہے۔ ہمارے معاشرے  کے مختلف مقامات اور سطوحات میں استعمال ہونے والی زبان کا جائزہ لیں تو الفاظ کو فقط جذباتی کتھارسس کا زریعہ سمجھ کر پیش کیا گیا ہے  ۔ معقول اور مدلل اظہار خیال کی بجائے جذبات  اور  محسوسات کے ذریعے نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس سارے منظر نامے سے سیاسی ، سماجی تعلیمی اور ثقافتی تناظرات کی حقیقت اور حیثیت کا قیاس کرنا مشکل نہیں  ہے ۔ چھوٹے پیمانے پر کیے جانے والے خاندانی اور دوستانہ   مکالمے  عقلی بنیادوں پر نرم زبان استعمال کرتے ہوئے کیے جائیں تو مسائل کے موثر حل کی جانب پہلا قدم ہوتے ہیں ۔ ان ہی کی بدولت تعاون ، احترام اور برداشت کی تربیت ہوتی ہے ۔ منطقی سماجی مکالمہ معاشرے کی بہتری  انسان کی شعوری اور اخلاقی ترقی کے لئے جزوِ لازم کی حیثیت رکھتا ہے روزمرہ گفتگو سے لے کر بڑے پیمانے پر ہونے والے مباحث اور تبادلہ خیال میں منطقی استدلال  کو اپنالیا جائے تو  جذباتی ردِعمل  کی بجائے مسائل کی جڑ تک پہنچا جا سکتا ہے اور تعصبات سے پاک فیصلے کرنے کی صلاحیت سے جامع اور  منصفانہ معاشرتی ڈھانچہ  تشکیل پا سکتا ہے ۔زبان کا مثالی استعمال یعنی عقل و استدال سے ا?راستہ  موثر،  بامعنی  اور تعمیری گفتگو   دورِ حاضر کی انتشاری کیفیت کو کافی حد تک  قابو کر سکتی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن