سید محمد علی
syedhamdani012@gmail.com
معاشرتی ترقی اور استحکام کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی تربیت کیسے کرتے ہیں۔ ایک مضبوط کردار والا انسان نہ صرف اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے بلکہ وہ ایک بہتر معاشرہ بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، اور تیز رفتار زندگی نے انسانی سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، وہاں نوجوانوں کی تربیت ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرتی اقدار میں تبدیلی آ رہی ہے، روایتی اصول ختم ہوتے جا رہے ہیں، اور نئی نسل زیادہ تر فوری نتائج کی تلاش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں صبر، قناعت، ایمانداری اور محنت جیسے بنیادی اوصاف کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کردار کی مضبوطی صرف ایک فرد کی ذاتی ترقی کے لیے ضروری نہیں، بلکہ یہ ایک بہتر اور متوازن معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان ایک بہتر مستقبل کے معمار بنیں، تو ہمیں ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ ایک انسان کی پہچان اس کے الفاظ اور اعمال سے ہوتی ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگ کامیاب دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقی کامیابی اسی کی ہوتی ہے جو اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتا ہے اور دوسروں کے لیے ایک مثبت مثال بنتا ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی میں وہاں کے افراد کی اخلاقیات اور کردار بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر معاشرے میں دیانت داری، انصاف، اور محنت جیسے اوصاف ناپید ہو جائیں تو وہ معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسل کو کن اصولوں پر پروان چڑھا رہے ہیں۔ کیا ہم انہیں صرف مادی کامیابی کی دوڑ میں لگا رہے ہیں یا انہیں سکھا رہے ہیں کہ حقیقی کامیابی اچھے اخلاق اور کردار میں ہے؟ ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر، وکیل، یا سرکاری افسر ہونے کے باوجود اگر کسی شخص میں ایمانداری، دیانت داری اور دوسروں کی مدد کا جذبہ نہیں تو اس کی ڈگریاں معاشرے کے کسی کام کی نہیں۔ ایک اچھے کردار کے بغیر علم، دولت اور طاقت سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سکھانے کی ضرورت ہے کہ کامیابی کا مطلب صرف ایک اچھی نوکری حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننا بھی ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا نوجوانوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ نوجوان اپنی اصل زندگی کی بجائے ورچوئل دنیا میں زیادہ مگن رہتے ہیں، جہاں وہ دوسروں کی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کے بارے میں غلط توقعات باندھ لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں، صبر اور قناعت جیسے اوصاف ان میں کم ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ڈپریشن اور ذہنی دباو¿ جیسے مسائل عام ہو چکے ہیں۔ کردار کی مضبوطی کا مطلب صرف سچ بولنا یا اچھے کام کرنا ہی نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرز زندگی ہے جو ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص کسی مصیبت میں ہے اور آپ کے پاس اسے مدد فراہم کرنے کا موقع ہے، تو آپ کا ردعمل ہی آپ کے کردار کا عکاس ہوگا۔ کیا آپ بے غرضی سے مدد کریں گے؟ کیا آپ خود کو اس کی جگہ رکھ کر سوچیں گے؟ یا پھر آپ صرف اپنے مفاد کی پرواہ کریں گے؟ یہی وہ سوالات ہیں جو ہمیں اپنے نوجوانوں کو سکھانے چاہئیں تاکہ وہ معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے عملی طور پر تیار ہو سکیں۔
کردار سازی میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے، کیونکہ بچے سب سے پہلے اپنے والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود ایمانداری، دیانت داری اور صبر کا مظاہرہ کریں گے، تو بچے بھی انہی اصولوں کو اپنائیں گے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو سچ بولنے کی تلقین تو کرتے ہیں، لیکن خود ہی معمولی مفاد کے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں، جس سے بچوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ سچائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اگر ایک استاد اپنے شاگردوں کو محنت کا درس دے لیکن خود کلاس میں سنجیدگی نہ دکھائے، تو طلبہ بھی غیر سنجیدہ ہو جائیں گے۔ اس لیے کردار کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ہم جو بات کہیں، اس پر خود بھی عمل کریں۔ تعلیمی اداروں میں بھی اس حوالے سے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آج زیادہ تر اسکول اور یونیورسٹیاں صرف نصابی تعلیم پر زور دیتی ہیں، جبکہ کردار سازی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ نتیجتاً، ہم ایسے نوجوان پیدا کر رہے ہیں جو عملی دنیا میں کامیابی تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان میں ایمانداری، احساسِ ذمہ داری اور سماجی اقدار کی کمی ہوتی ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ لوگ ٹریفک سگنلز توڑتے ہیں، جھوٹے وعدے کرتے ہیں، رشوت لیتے اور دیتے ہیں، اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ بچپن میں ان کی تربیت میں یہ عناصر شامل نہیں کیے گئے تھے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں میں کردار سازی کے موضوعات کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے، تاکہ بچے چھوٹی عمر سے ہی اچھے اور برے کی تمیز سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نوجوانوں کو یہ بھی سکھانا ہوگا کہ کامیابی کا مطلب صرف مادی دولت اور عہدہ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کی مدد کرنا، معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا بھی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ایک مضبوط کردار کی مالک ہو، تو ہمیں انہیں عملی مثالوں سے سکھانا ہوگا، محض زبانی نصیحتیں کافی نہیں۔ ہمیں انہیں ایسے مواقع فراہم کرنے ہوں گے جہاں وہ عملی طور پر سیکھ سکیں کہ ایمانداری، دیانت داری، صبر اور محنت کیسے ان کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک نوجوان کسی فلاحی کام میں حصہ لیتا ہے، تو وہ اپنی زندگی میں دوسروں کی مدد کی اہمیت کو سمجھے گا۔ اسی طرح، اگر ہم انہیں خود احتسابی کا سبق دیں، تو وہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے قابل ہوں گے۔ آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کردار کی مضبوطی ایک دن میں حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اگر ہم آج سے اپنی نئی نسل کی تربیت پر توجہ دیں گے، تو کل ہمیں ایک باشعور، باکردار اور ترقی یافتہ معاشرہ دیکھنے کو ملے گا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ اصل کامیابی اچھے اخلاق اور مضبوط کردار میں ہے، کیونکہ جب انسان کا کردار مضبوط ہوگا، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی سنوارے گا بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثبت مثال بنے گا۔
"اپنے کردار پر ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے"