اسلام آباد(خبرنگار)کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے کہا ہے کہ 370 میگاواٹ کے منصوبوں کے لیے ریکارڈ 2690 میگاواٹ کے برابر بولیوں کا موصول ہونا نہ صرف ہمارے لیے بلکہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہے بڈنگ کے عمل میں مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کا حصہ لینا توانائی کے پائیدار مستقبل کی جانب ایک اہم قدم اور سرمایہ کاروں کے پاکستانی معیشت اور ہم پر اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے متبادل ذرائع سے پاور پروڈکشن پیداواری لاگت کم کرے گی جب کہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہونے کا فائدہ صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں پہنچے گاپاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں زیادہ تر بجلی درآمدی ایندھن سے پید اکی جاتی ہے جس کا نقصان نہ صرف ماحولیات کو پہنچتا ہے بلکہ ری گیسیفائیڈ لکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کوئلہ اور فرنس آئل جیسے ایندھن کی درآمد سے پیداواری لاگت بھی بڑھ جاتی ہے مہنگے ایندھن اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا میں قابل تجدید توانائی کے استعمال کا رجحان بڑھتا جارہا ہے یہ ماحول دوست پائیدار اور توانائی کے روایتی ذرائع کے مقابلے میں محفوظ اور سستی توانائی ہوتی ہے۔ دنیا میں 7 ممالک ایسے ہیں جو اپنی توانائی کی ضروریات کو قابلِ تجدید ذرائع سے پورا کررہے ہیں ،البانیہ، بھوٹان، نیپال، پیراگوئے، آئس لینڈ، ایتھوپیا اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو میں استعمال ہونے والی بجلی کا 99.7 فیصد سے زائد حصہ سولر، ونڈ، ہائیڈرو اور جیوتھرمل سے پیدا کیا جاتا ہے جب کہ 50 ممالک ایسے ہیں جن کا بجلی کا کم از کم 50 فیصد حصہ قابل تجدید توانائی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے رینوایبل انرجی میں شمسی توانائی ، ہوا کی توانائی ، آبی توانائی ، بائیو ماس توانائی ، جیو تھرمل توانائی اور سمندری توانائی شامل ہیںقابل تجدید توانائی سے گرین ہاؤس گیسز جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ وغیرہ کا اخراج کم ہوتا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آتی ہے رینوایبل انرجی کے ذرائع (سورج، ہوا، پانی اور زمین کی گرمی وغیرہ) ختم نہیں ہوتے اور ان سے مستقل بنیادوں پر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ روایتی ایندھن جیسے تیل گیس اور کوئلہ کی پیداوار محدود ہے اور یہ ایک دن ختم ہوسکتے ہیں رینو ایبل انرجی کے استعمال سے بہت سے ممالک توانائی کے معاملے میں خودکفیل ہوگئے ہیں اور درآمدی ایندھن تیل، گیس اور کوئلہ پر انحصار کم ہونے سے ان کی معیشت پر بوجھ بھی کم ہوا ہے قابل تجدید توانائی کے منصوبے مقامی معیشت کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ان منصوبوں سے بجلی کی پیداوار سستی ہونے کے ساتھ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور دور دراز علاقوں کو بجلی کی فراہمی بھی ممکن ہوتی ہے۔ وہ علاقے جہاں بجلی کا روایتی نظام موجود نہیں، وہاں سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز جیسی ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی فراہم کی جا سکتی ہے دنیا بھر میں حکومتیں قابل تجدید توانائی کے فروغ کے لیے مراعات دے رہی ہیں اور پالیسیاں بنارہی ہیں پاکستان میں بھی سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور کے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے قابل تجدید توانائی کے ذرائع سستے اور موثر ہوتے جارہے ہیں اور ان کی کارکردگی و استعمال میں بہتری آرہی ہے جس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ لاگت میں بھی کمی آرہی ہے صنعتوں اور کاروباری اداروں میںرینوایبل انرجی کے استعمال سے توانائی کی بچت اور کاروبار کو ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے قابل تجدید توانائی کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس کی پروڈکشن مقامی سطح پر کی جاسکتی ہے جس سے توانائی کی فراہمی میں بہتری آتی ہے اور معیشت کو بھی فروغ ملتا ہے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی پاکستان کی واحد نجی یوٹیلیٹی کے الیکٹرک نے حکومتی پالیسیوں اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ہدایت کے مطابق 2030ء تک اپنی بجلی کی پیداوار میں سے 30 فیصد کو قابل تجدید توانائی پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ جنریشن مکس میں 1300 میگاواٹ رینوایبل انرجی شامل کرنے کے لیے یوٹیلیٹی نے 640 میگاواٹ کے 3 منصوبوں کے لیے پیشکشیں طلب کی تھیںجس میں اُسے بلوچستان میں 150 میگاواٹ کے سولر پاور منصوبے کے لیے 15 پیشکشیں موصول ہوئیںدھابیجی (سندھ) میں 220 میگاواٹ سائٹ نیوٹرل ہائبرڈ منصوبے کے لیے 7 بولیاں موصول ہوئیںیہ سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا پاکستان کا پہلا ہائبرڈ منصوبہ ہے کراچی (سندھ) میں دو منصوبوں دیہہ ہلکانی میں 120 میگاواٹ اور دیہہ میٹھا گھر میں 150 میگاواٹ پر کام جاری ہے ۔