نامہ نگاری کرنیوالے رسول بخش نسیم کی25ویں برسی

کئی بار قلم اٹھایا اور رکھ دیا ، آنکھیں دھندلا جائیں تو لکھنا مشکل ہو جاتا ہے، کوئی زندگی کی رعنائیوں کا مرثیہ بے نم آنکھوں سے لکھ کر دکھائے تو مانوں، آخری قدم قبرستان سے باہر رکھنے لگا تو ایک بار پھر مڑ کر دیکھا، مٹی کا ایک ڈھیر سامنے تھا۔ تو کیا وہ رعنائی خیال، وہ تبسم، وہ تکلم، وہ علم، وہ بصیرت، وہ حسن خلق، سب پیوند خاک ہو گئے؟کیا ان سے دائمی محرومی ہی انسان کا مقدر ہے؟ لگا دل اچھل کر سامنے آگیا۔ جی چاہا کہ میں اس خاک سے مخاطب ہو کر غالب کے الفاظ میں شکوہ کروں کہ تو نے ’یہ‘گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟ اداسی نے پائوں جکڑ لیے۔ اللہ کا شکر کہ مرشد اقبال ؒ آگئے اور میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ میں سنبھل گیا ، جکڑے ہوئے قدم اٹھنے لگے۔ انہوں نے سرگوشی کی:
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
اوچ شریف میں صحافت کی باوقار شخصیت رسول بخش نسیم، جنہیں دنیا نسیم صاحب کے نام سے جانتی رہے گی،میرے والد تو تھے ہی ، بہترین دوست اور استاد بھی تھے، مربی اور محسن بھی تھے۔ 12رمضان المبارک 1421ھ (بمطابق9دسمبر2000ء) کوجب آفتاب مشرق سے مغرب کی طرف گامزن تھا، آسمان صحافت کا یہ درخشاں ستارہ ٹوٹ کر دور کہیں خلائوں میں گم ہو گیا۔ شمع صحافت کو خون جگر سے جلائے رکھنے کے فن سے آشنا رسول بخش نسیم کی پیدائش یکم اکتوبر 1932ء کو پانچ دریائوں کے حسین سنگم میں واقع تحصیل علی پور کے ایک دورافتادہ گائوں ٹبہ برڑہ سرکی میں ہوئی۔ بچپن یتیمی میں گزرا۔ غربت کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے البتہ زمانے کی ٹھوکروں نے انہیں بہت کچھ پڑھا دیا۔ نسیم صاحب جیسا وسیع المطالعہ اور متنوع ذوق رکھنے والا میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ مذہب، سیاست، سماج، ادب، فلسفہ، فنون لطیفہ۔۔۔۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ان کی معلومات بے پناہ اور تجزیہ انتہائی گہرا نہ ہو۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی پاک فوج میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہو گئے۔ فوج میں ان کی صلاحتیں نکھریں، اس لیے فوج میں انہوں نے تیزی سے ترقی کی۔ ادب اور شاعری سے انہیں بچپن ہی سے لگائو تھا، چنانچہ وقتاً فوقتاً افواج پاکستان کے ماہنامہ جریدے ’ہلال‘ میں لکھنے لگے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن کی گولہ باری سے زخمی ہوئے ۔ ان کی فوجی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے انہیں میڈل بھی عطا کیا گیا۔ 1970ء کی دہائی میں بطور صوبیدار انہوں نے پاک فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنے آبائی گائوں کو خیر باد کہہ کر اوچ شریف کو اپنا مسکن بنا لیا۔
فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے کچھ عرصہ سیت پور ، خان پور نہڑکا اور بنڈہ اسحاق کے سرکاری سکولوں میں بطور فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کے طور پر خدمات سرانجام دیں ۔درس و تدریس کا شغل اختیار کیا اور حکمت کا کام بھی کرتے رہے۔(آپ پاک فوج کی میڈیکل کور سے سند یافتہ مستند حکیم تھے)اس دوران اپنے پیرومرشدولی عہد درگاہ جلالیہ عالیہ مخدوم سید غلام اکبر بخاری کے حکم پر فتح پور کمال ضلع رحیم یار خان کے موضع کوٹ شاہاںمیں منتقل ہو گئے ،یہاں صوفی بزرگ حضرت جتی سلطان کے مزار پرخلیفہ اور متولی کے طور پر کئی سال گزارے، یہاں قیام کے دوران آپ نے ایک مسجد اور مدرسہ قائم کیا جہاں اس دور میں بچوں کو قرآن پاک کے علاوہ اردو، ریاضی، انگریزی اور جغرافیہ کے مضامین کی مفت تعلیم مہیا کی جاتی۔ 
اس دوران رسول بخش نسیم مسلسل اخبارات ورسائل میں کہانیاں اور مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے رہے۔ اوچ شریف منتقل ہونے کے بعد انہوں نے تمام کشتیاں جلا کر صحافت اور ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اَسّی اور نَوّے کی دہائیوں کا دور رسول بخش نسیم کی صحافتی زندگی کا اہم دور رہا ہے، اس دور میں انہوں نے اپنی صحافتی تحریروں سے اوچ شریف کی سیاسی، سماجی و ادبی سطح پر اپنے گہرے نقوش مرتب کیے ۔ اوچ شریف سے انہوں نے امروز، مغربی پاکستان، نوائے وقت، دی نیشن، لیل ونہاراور الشمس سمیت کئی قومی ومقامی اخبارات و جرائد کی نمائندگی کی۔ آپ نے روزنامہ ’نوائے وقت‘ کی مسلسل بیس سال تک نمائندگی کی۔   آپ نے اوچ پریس کلب کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔
رسول بخش نسیم اصلاًعلم اور تحقیق کی دنیا کے آدمی تھے اور ان کا شمار اردو کے سرکردہ ادباء اور صحافیوں میں ہوتا تھا لیکن مقامی صحافت کو انہوں نے جو معیار، مزاج اور حسن دیا ، انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ، ان کی صحافتی تحریروں میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی، متانت اور اعتدال تھا، وہ اپنی صحافت سے سماجی و معاشرتی اصلاح اور عوامی بیداری کے ہمیشہ خواہاں رہے۔ اوچ شریف کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے ان کی لکھی گئی تحقیقی کتاب ’روحانیت اوچ‘ کو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے خصوصی انعام سے نوازا گیا تھا۔ ان کی خود نوشت داستان حیات ’پردے میں رہنے دو‘ کے نام سے منصئہ شہود پر آچکی ہے، ’سندرسی لڑکی‘ کے نام سے اپنی زندگی کی حقیقی داستان کے موضوع پر ایک ناول بھی لکھا ۔ دیگر کئی کتابیں، اور افسانے ان کے قلم کی جولانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ادب اور صحافت کی خدمت کرتے کرتے آپ دل کے مریض بن گئے۔ دمہ کی تکلیف انہیں پہلے سے ہی تھی مگر انہوں نے لکھنا نہ چھوڑا، بعدازاں ان کی آنکھوں نے بھی جواب دے دیا، آپریشن وغیرہ کے ذریعے تھوڑی سی بینائی بحال ہوئی لیکن زیادہ لکھنے سے قاصر ہو گئے۔ مئی 2000ء میں ان کی شریک حیات فوت ہوئیں تو دنیا کی بے ثباتی پر ان کا یقین پختہ ہو گیا، اپنی شریک حیات کی وفات کے سات ماہ بعد رمضان المبارک کی مقدس ومعطر ساعتوں میں وہ بھی اپنے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
یہ جھلک ہے اس آدمی کی جسے 13رمضان المبارک کو ان کے آبائی قبرستان ٹبہ برڑہ تحصیل علی پور میں اپنے والدین کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن