اندر کی بات… شہباز اکمل جندران
آج کل گھر چلانا اتنامشکل ہے؟ حکومت چلانا تو اور بھی مشکل ہو گا- جہاں گوناگوں مسائل ہوں- اربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضے ہوں تو یہ معیشت دان ہی بتا سکتے ہیں کہ حکومت کیسے چل رہی ہے- کتنی مشکل میں ہے- پاکستان چار اکائیوں پر مشتمل ایک ریاست ہے- جہاں دہائیوں سے مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں- سیاسی خلفشار بھی انتہا کا ہے- ریاست انتشار و خلفشار کا شکار ہو رہی ہو تو عدم استحکام کا پیدا ہونا یقینی ہے-
فروری 2024ء میں عام انتخابات کے بعد گمان تھا کہ حالات سنبھل جائیں گے- کچھ سدھار ہوتا دکھائی دے گا- لیکن انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں جو صورت حال ہیاسے کسی طرح بھی موزوں اور بہتر قرار نہیں دیا جا سکتا- اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ، غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے بھی سامنے آئی-نجی چینلز نیبھی اس حوالے سے کافی کچھ ٹیلی کاسٹ کیا، بتدریج یہ عمل اب بھی جاری ہے- تاہم شومئی قسمت کہ حالات بدستور دگرگوں رہے-
سیاسی جماعتوں اور جماعتوں کے قائدین میں لگتا ہے تحمل اور برداشت نہیں رہی- روائتی رواداری بھی ناپید ہے- محبتیں بھی جیسے ختم ہو گئیں- ایسے میں بہتری کی توقع کون کرے – سیاست میں جو تحمل، برداشت اور رواداری کبھی ہمارا طرہ? امتیاز تھی، اب دھینگا مشتی اور گالی گلوچ میں تبدیل ہو چکی ہے- جس نے ہمارے سیاسی کلچر کو داغدار کیا ہے- جس کے باعث عوام کا اعتماد ہی سیاستدانوں سے اٹھ گیا ہے-
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں پر جب بھی تنقید ہوتی ہے میرا خیال ہے بے وجہ نہیں ہوتی- تاہم سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جس نے بے مقصد تنقید کو اپنا وطیرہ بنایا ہوا ہے- انتشار پیدا کرتے رہنا اس جماعت کی عادت بن گئی ہے-جماعت کا سوشل میڈیا سیل بھی ہے- جو مادر پدر آزاد نظر آتا ہے- حکومتی جماعت کے خلاف بے سروپا منفی پروپیگنڈہ مہم چلانا اور مہم جوئی کرنا جس کی عادت بن گئی ہے- اگرچہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کے بعد یہ سلسلہ کافی حد تک رک گیا ہے- لیکن بیرون ملک سے مہم جوئی کا یہ سلسلہ تواتر سے جاری ہے-
تنقید وہی اچھیٍ جو بامقصد ہو- ہیجان پیدا نہ کرے- افراتفری کا باعث نہ بنے- ہماری بدقسمتی ہے کہ اچھے حکومتی کاموں کو بھی تنقید کے زمرے میں لیا جاتا ہے- تنقید برائے تنقید کی جاتی ہے- جو کسی طرح بھی احسن قدم نہیں- ہم آج بات کریں گے پنجاب کی سیاست اور پنجاب کی حکمرانی کی- پنجاب اکثریتی آبادی والا صوبہ ہے- جس میں بے شمار مسائل ہیں اور دہائیوں سے ہیں-
لیکن جب سے مریم نواز نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا ہے- بتدریج ترقی ہو رہی ہے اور مسائل میں کمی آ رہی ہے- "سیاست دشنام طرازی نہیں، خدمت کا نام ہے" اور مریم نواز بطور سیاستدان اور وزیراعلیٰ عملی طور پر یہ "خدمت" کر کے دکھا رہی ہیں- اپنے دور اقتدار کے 365 دنوں میں یہ ثابت کر کے بھی دکھایا ہے کہ دل میں جوش وجذبہ اور ارادے مصمم ہوں تو کوئی بھی راستے کی دیوار نہیں بن سکتا- مریم نواز نے ثابت بھی کیا ہے- کہ بلاوجہ کی تنقید اور بے سروپا الزام تراشی اْن کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی- مریم کسی تنقید یا الزام تراشی کو خاطر میں لائے بنا بتدریج آگے بڑھ رہی ہیں- انہوں نے بتا دیا ہے کہ طرزِ حکمرانی کیا ہوتا ہے؟
24 فروری 2024ء کو مریم نواز نے صوبے کی وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا-اس ایک سال کے عرصے میں انہوں نے بے شمار چیلنجز کا سامنا کیا- مسائل کافی تھے- لیکن گھبرائی نہیں- مشن کی تکمیل کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں-
قیام پاکستان سے عہدِ حاضر تک بہت سی خواتین نے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے- ان خواتین میں بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، محترمہ نسیم ولی خاں، محترمہ کلثوم نواز، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور مریم نواز کے نام سرفہرست اور قابل ذکر ہیں- سیاسی جدوجہد اور قومی ترقی میں ان خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا- اگرچہ اور بھی بے شمار خواتین ایسی ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں، ثابت بھی کر رہی ہیں- ملک و قوم کی ترقی میں وہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں- مریم نواز نے بطور وزیراعلیٰ ایک سال میں ہی صوبے کی بہتری ، ترقی اور مسائل کے حل کے لیے بہت سے کام کئے ہیں جن میں پیش رفت ہوتی بھی نظر آتی ہے- اس کارکردگی سے انہیں عوام میں کافی پذیرائی مل رہی ہے-
100 سے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت سولر سسٹم کی سپلائی ہو یا اپنی چھت اپنا گھر کی تکمیل- یہ سب پنجاب حکومت کے رفاعی منصوبے ہیں- ہیلتھ اور زراعت سیکٹر میں بھی بہت سے منصوبے شروع ہو چکے ہیں- لاہور میں ایک بڑے سرکاری کینسر ہسپتال کی تکمیل بھی اب آخری مراحل میں ہے جبکہ طلبہ کو لیپ ٹاپ کے علاوہ آسان شرائط پر کاروبار کے لیے قرضے بھی دیئے جا رہے ہیں-
اس حکومتی کارکردگی سے مخالفین کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں- وہ بہت اپ سیٹ دکھائی دیتے ہیں- مریم نے بطور خاتون وزیراعلیٰ جب پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایک سال کی قلیل مدت میں وہ اتنا کچھ کر لیں گی کہ مخالفین حیران، پریشان اور ششدر رہ جائیں گے-
مریم اور اْن کی ٹیم (کیبنٹ ارکان) صوبے کی حالت زار کو سنوارنے، مزید بہتر بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور انتھک محنت کر رہے ہیں- محنت ہوتی نظر بھی آ رہی ہے- 80 سے زیادہ رفاعی اور ترقیاتی منصوبوں کا پنجاب حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے جن میں سے کافی مکمل ہو چکے ہیں- اور باقی پایہ? تکمیل کی حد کو چھو رہے ہیں- صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا رول بھی قابل رشک ہے- وہ حکومتی کارکردگی اور منصوبہ جات کے حوالے سے جو سیر حاصل تفصیلات، وزیراعلیٰ کا وڑن اور پیغام جس تواتر کے ساتھ میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا رہی ہیں وہ قابل رشک ہے- مقامی صحافیوں سے اْن کے رابطے بہت مربوط اور مضبوط ہیں- جب بھی صحافیوں سے ملتی ہیں ان کا بیانیہ حکومتی کارکردگی اور وڑن کا احاطے کئے ہوتا ہے- 365 دن تھوڑے نہیں ہوتے، آسانی سے جانچا جا سکتا ہے- ان 365 دنوں میں پنجاب حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کیا؟ اْن کی پالیسیوں سے صوبے میں کیا بہتری آئی؟
بلاشبہ مریم نواز نے بطور سیاستدان اور وزیراعلیٰ خود کو منوایا ہے- لوگ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ مریم اچھی منتظم اور لیڈر ہیں- اْن میں وہ سیاسی قابلیت اور اہلیت موجود ہے جو کسی بھی سیاستدان یا لیڈر میں ہونی چاہئے- اپنے وڑن اور کارکردگی سے انہوں نے اپنے لاکھوں مداح پیدا کر لیے ہیں جو ناصرف اْن کی کارکردگی سے مطمئن ہیں بلکہ بہت زیادہ خوش اور معترف بھی نظر آتے ہیں-
مریم نواز کے رول ماڈل اْن کے والد میاں محمد نواز شریف ہیں- سیاست میں انہی کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا چاہتی ہیں اور اپنا نام و مقام بنانا چاہتی ہیں- اْن کی خواہش ہے کہ کچھ ایسا کر جائیں کہ عوام انہیں ہمیشہ یاد رکھیں- دو، تین سال تک پنجاب میں شروع ہونے والے ترقیاتی اور فلاحی منصوبے جب اختتام پذیر ہوں گے تو یقیناً صوبے میں تبدیلی محسوس ہو گی- حالات بدلیں گے تو ن لیگ کی سپورٹ میں بھی مزید اضافہ ہو گا-
اچھی تعلیم، بہتر ہیلتھ، جدید ٹیکنالوجی اور روزگار قوم کی اہم ضرورتیں ہیں- کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہیں کہ ان شعبوں پر توجہ دی جائے- جبکہ مریم نواز بھرپور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں- 25 کروڑ آبادی والے اس صوبے میں اگرچہ مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن مریم حوصلہ مند ہیں اور توقع رکھتی ہیں کہ پانچ سال بعد جب حکومت کا دورانیہ مکمل کر کے وہ الیکشن میں جائیں گے تو سرخرو ہوں گی- تاہم محروم طبقے پر ابھی بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے- یہ بھی ضروری ہے کہ اْن کی محرومیوں کا کسی طرح مداوا ہو سکے-
نیت ٹھیک ہو اور دیانت داری غالب رہے، بلاشبہ ترقی کا عمل جاری رہتا ہے- مشکلیں کتنی ہی کیوں نہ ہوں جوش و جذبہ اور ارادوں میں ولولہ ہو تو منزلیں قریب آ جاتی ہیں- مریم نواز جس لگن اور تندہی سے کام کر رہی ہیں اْس پر گمان کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں عوام سکھ کا سانس لے گی- بہت سی آسانیاں انہیں پیدا ہوتی نظر آئیں گی-