حساس
سعداختر
hassas_f@yahoo.com
26 سال پہلے شروع ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا سفر کیا اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ہیں جو ذہنوں میں جنم لیتے ہیں- بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا- پاکستان پیپلز پارٹی کا ماضی ہمارے سامنے ہے- جس پر ابتلاء کے کئی دور آئے- سب سے مشکل وقت وہ تھا جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کو ختم کیا- آئین معطل کر دیا- مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو عدالتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں- انسانی حقوق پامال ہونے لگے- ایک بڑی سیاسی جماعت (پی پی پی) کو دیوار سے لگا دیا گیا- جیلیںِ پارٹی کارکنوں سے بھر دی گئیں اور پارٹی چیئرمین (بھٹو) بھی پابند سلاسل ہو گئے- یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کے لیے زندہ رہنے کے تمام راستے مفقود ہو چکے تھے- بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی جس پر عملدرآمد بھی کر دیا گیا- خیال تھا بھٹو نہ رہے تو پیپلز پارٹی بھی نہیں رہے گی اور آنے والے وقتوں میں قصہ پارینہ بن جائے گی- مگر یہ پارٹی ختم نہ ہو سکی، ٹکڑے ضرور ہوئے- لیکن حقیقی پارٹی برقرار رہی- یہ اب بھی اپنی شناخت اور وجود رکھتی ہے-
جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے- تو اس وقت وہ بہت زیادہ مصائب میں گھری ہوئی ہے- غلط فیصلوں اور غلط ڈائرکشن نے اْسے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں سے تنہائیوں کا سفر شروع ہوتا ہے- اگرچہ پی ٹی آئی گرینڈ الائنس کی بات کر رہی ہے- عید کے بعد ملک گیر بڑے احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے- لیکن نہیں لگتا کہ اس کی لیڈرشپ اس مقصد میں کامیاب ہو سکے گی- گرینڈ الائنس اور احتجاج کی کامیابء کے لیے ضروری ہے کہ جمعیت علماء اسلام اس کا حصہ بنے- مگراطلاعات یہ ہیں کہ الائنس میں شامل ہونے کے لیے مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے سامنے کڑی شرائط رکھ دی ہیں- شرائط کے تحت جمعیت علماء اسلام نے پی ٹی آئی سے خیبرپختونخوا میں تین وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے جبکہ الائنس کی سربراہی بھی مولانا کو دینے کی بات کی گء ہے- مگر پی ٹی آئی قیادت نے جمعیت کی ان شرائط اور مطالبات کا اب تک مثبت جواب نہیں دیا- جس کا مطلب یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جمعیت کی ان شرائط یا مطالبات کو نہ ماننے کی صورت میں گرینڈ الائنس تشکیل نہیں پا سکتا- ایک دو چھوٹی جماعتیں پی ٹی آئی کے ساتھ مل بھی جائیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کے نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کا عید کے بعد شروع ہونے والا احتجاج کسی بھی صورت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا- جو سٹریٹ پاور مولانا کے پاس ہے وہ پی ٹی آئی نہیں رکھتی- بہت سا خلفشار بھی پی ٹی آئی میں پایا جاتا ہے- ایسا لگتا ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کے غیر معمولی عمل سے گزر رہی ہے-
ا?س کی صفوں میں غیر یقینی کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے- قیادت بھی سمجھتی ہے کہ جمعیت علماء اسلام اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ نہ بنی تو اْن کے "کاز" کو نقصان پہنچے گا اور عید کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی تحریک بھی ایک ناکام شو ہو گا- ہم پی ٹی آئی کی ناکامیوں کی بات کریں تو 9 مئی کے بعد اسے تمام احتجاجی تحریکوں میں ناکامی ہوئی ہے- احتجاج کا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی نتیجہ نکلے جو کچھ آپ حکومت سے منوانا چاہتے ہیں اْس میں کامیابی ملے- 26 نومبر کو بھی ایک کال تھی جو بے مقصد رہی- بانی کی یہ کال حتمی اورآخری تھی- بانی اس یقین کے انتہائی قریب تھے کہ اْن کی کال پر پورا پاکستان گھروں سے باہر نکل آئے گا- پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہونیسے کاروبار زندگی رک جائے گا تو حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہو گا تاہم ایسا کچھ نہ ہو سکا-
کال دی گئی- خیال تھا خیبرپختونخوا سے بہت بڑی تعداد میں لوگ ڈی چوک پہنچنے کے لیے نکلیں گے اور وہاں پہنچیں گے جبکہ پنجاب اور سندھ سے بھی کارکنوں کے قافلے جب مرکزی قافلے سے آ ملیں گے تو حکومت کے لیے یہ آخری دن ثابت ہو گا- مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا- خیبرپختونخوا سے اگرچہ لوگ نکلے لیکن اتنی بڑی تعداد میں نہیں کہ حکومت کو کوئی فرق پڑتا- وہ گھبرا جاتی اور پریشان ہو جاتی- پی ٹی آئی نے اب تک حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی جتنی بھی کوششیں کیں ، سب ناکام ہو ئی ہیں- اسٹیبلشمنٹ بھی بانی پی ٹی آئی کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں- بانی نے جو خط آرمی چیف کو لکھے وہ صرف میڈیا کی زینت بنے- آرمی چیف تک نہ پہنچے- خطوط کی خبروں پر ایوان صدر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران صحافیوں نے آرمی چیف سے خطوط کی بابت پوچھا - تب وہ گویا ہوئے کہ انہیں کسی کا کوئی خط نہیں ملا، نہ انہیں کسی خط سے کوئی دلچسپی ہے- خط آیا بھی تو پرائم منسٹر کو پرائم منسٹر سیکرٹریٹ بھیج دیں گے-
اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بانی کے بارے میں کیا رائے ہے- اندازہ لگانا چنداں بھی مشکل نہیں کہ بانی جلد کسی گرداب سے نکلنے والے نہیں- وہ جن مشکلات کا شکار ہیں وہ مزید بڑھتی نظر آتی ہیں- پتہ نہیں، بانی پی ٹی آئی کو یہ غلط فہمی کیوں ہے اور کیوں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سار اپاکستان اْن کے ساتھ ہے اور مقبولیت کا گراف بھی بہت بڑھا ہوا ہے- لیکن بانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کہیں زیادہ گراف رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کا کیا ہوا؟ اسٹیبلشمنٹ نے جب انہیں فارغ کیا اور جیل کی راہ دکھائی ، تو وہ بھی جیل کی ایک بیرک میں یہ گمان کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ سزا سنائی گئی تو سارا ملک سڑکوں پر ہو گا-جنرل ضیاء اْن کی سزا کے فیصلے کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے- کافی لوگوں نے کچھ بڑے اضلاع میں خود سوزیاں بھی کیں- لیکن اس سے جنرل ضیاء کو کوئی فرق نہیں پڑا- بالآخر ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھے اور دنیا سے رخصت ہو گئے- نہ کوئی بڑا احتجاج ہوا، نہ تحریک چلی-
اگرچہ بانی نے لکھے جانے والے خطوط میں کچھ باتیں کی ہیں لیکن معلوم نہیں کس نے انہیں یہ خط لکھنے کا مشورہ دیا کہ خطوط کی تحریر کو معافی نامہ نہ بنائیں- ایسا تاثر نہ دیں کہ ٹوٹ چکے ہیں – مصالحت کرنا چاہتے ہیں اس تناظر میں اس بات یا تاثر کو سچ مان لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے پی ٹی آئی رہنما بانی کی رہائی نہیں چاہتے-
مصالحت کی خواہش ہو تو کسی ایک فریق کو جھکنا پڑتا ہے مگر شاید بانی اس کے لیے تیار نہیں- اس لیے "مصالحت" کی سب راہیں مسدود ہوتی نظر آ رہی ہیں بلکہ مسدود ہو چکی ہیں- اسٹیبلشمنٹ میں بانی کا جنرل فیض جیسا کوئی "ہمدرد" بھی موجود نہیں- ثاقب نثار والی عدلیہ بھی نہیں رہی- بانی اگر جیل سے رہائی چاہتے ہیں، خواہش رکھتے ہیں کہ دوبارہ سیاسی زندگی کا آغاز کریں تو انہیں حقیقت کی دنیا میں آنا ہو گا- دیکھنا ہو گا اْن سے ایسی کیا غلطیاں ہوئیں کہ اقتدار سے تو گئے مستقبل کے بھی سب راستے بند ہو گئے- نظر نہیں آتا جلد جیل سے باہر آ سکیں گے- خیر سے 73 سال کے ہو گئے ہیں- مزید 10 سال جیل میں گزار لیے تو 83 سال کے ہو جائیں گے- زندہ بھی رہے تو 83 سال کی عمر میں پھر ا?ن کے لیے شاید سیاست کرنا مشکل ہو جائے- سیاست کے راستے ویسے بھی بہت پیچیدہ ہوتے ہیں-