پاکستان پھر کسی لیڈر کی تلاش میں۔ تیسری قسط

ڈاکٹر طاہر بھلر
آج کے زمینی حقائق کو اگر دیکھتے ہیں تو اقوام متحدہ کے ممبر کل ایک سو ترانوے ممالک ہیں جن میں افریقہ کے چون ، مسلم اٹھاون ممالک ہیں ، تنیتیس کے قریب یورپ کے مالک ہیں، تینتیس کے قریب ہی لیٹن امریکا کے ممالک ہیں ان تمام کی تعدادکو ملا کر ایک سو ستر تک جا پہنچتی ہے جو کہ موجودہ یو این او کا نوے فیصد حصہ سے زیادہ بنتا ہے۔ آپ کے علم میں شائد یہ بات نہ ہو کہ یہودیوں کے علاوہ یورپ کے ممالک کے لاکھوں افراد امریکی شہریت رکھتے ہیں ۔مسلم ممالک اور تیسری دنیا کے بہت کم افراد امریکی شہریت رکھتے ہیں یا ان کو شہریت دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے یورپ کے تینتیس ممالک میں آپ کو امن ، ترقی سکون نظر آئے گا، جبکہ بشمول پاکستان باقی تمام ممالک کے اندر شورشیں، غلامانہ قیادت نظر آتی ہیں ، زبوں حال اور ڈرے ، سہمی ہوے ، خوفزدہ بلکہ غلامانا سوچ کے حامل حکمران بر سر اقتدار نظر آئیں گے جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں بلکہ جو امریکا جیسی سپر پاور کہتی ہے اس کو بے چون و چرا مان رہے ہیں کیونکہ ان ممالک کے اندر تک امریکی خفیہ اےجنسیکا اثرو نفوز ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال سے اتنا بڑھ چکا ہے اور مغرب اتنا زیادہ حاوی ہو چکا ہے کہ ان کے اپنے ملکوں میں تو ٹیکنالوجی ، معاشی ، تعلیمی ، ریسرچ کے ادارے انتہائی پر سکون اندا میں اپنی طاقت یعنی ٹیکنالوجی کو وسعت دے رہے ہیںجبکہ ہمارے جیسے ممالک ابھی تک آٹے ، دھماکوں، کے چکر سے باہر نہیں نکل پا رہے اور نہ ہی انہیں سپر پاور ااس غربت کے گن چکر سے نکلنے دے رہے ہیں دنیا میں ڈالر کی اجارہ داری ہے ، ہر وہ پروڈکٹ بکتی ہے جس کی بڑی طاقتوں سے اجازت ہو کہ اگر ان کے حکمران خومختارانہ فیصلہ کرنے کا سوچیں ، تو اگلے دن ان کی حکومتیں گرا دی جاتی ہیں ، ان کے لیڈر پابند سلاسل ، یا ان کو مروانے یا ان کے جہاز کریش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔قارین آج ایرانی صدر ہوائی حادثے کا شکار ہو کر خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں ۔ موت کا ایک دن مقرر ہے لیکن راقم یقین سے کہہ سکتا ہے جو میں نے اس شخص کو پاکستان کےدورے کے دوران دیکھا کہ اس مرد قلندر میں جرات رندانہ ، خود مختاری اور موت سے بے خوفی نظر آئی۔بلکل اسی طرح جس طرح ایران کے شہید وزیر اعظم رجاوی جب ایک دھماکے میں شہید ہوے تھے اورایران کی پارلیمنٹ کے ساٹھ تک ممبران زخمی یا شہید ہو گئے تھے،اور جناب امام خمینی جب وہاں کا دورہ کرنے گئے تو ان کوایک مغربی صخافی نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو اتنی زیادہ اموات کے باوجود یہاں آنے سے ڈر نہیں لگ رہا ، تو انہوں نے تاریخی جواب دیا کہ میں اس وقت جہاں کھڑا ہوں وہاں سے چھہ فٹ نیچے زمین کے اندر چلا جاوں گا ڈر کس بات کا ۔ یادرہے کہ انقلاب ایران جو انیس سو اناسی میں برپا ہو تھا میں ہزاروں نوجوان روزانہ سڑکوں پر نکلتے اور تہران میں ننگی گولئیوں کے سامنے کھڑے ہو کر جانیں دیتے اور بعد میں یہی گولیاں کھانے والے عوامی کارکن عوامی عدالتوں میں سابق وزیراعظم عباس ہویدا سمیت کئی شہنشاہی وزارا کو عوامی عدالتوں میں کارکن لمحوں میں پھانسی کی سزایں دیتے انہی بہادری اور قربانیوں کی وجہ سے ایران آج اکیلا امریکی سامراجئت کے خلاف کھڑاہے۔ ایران دنیا کی واحد طاقت ہے جس کے پاس کوئی ایٹمی یا میزائلوں کی قوت نہ تھی ، لیکن اس کے عوام اورانقلاب پاسداران نے دو سال تک ایک سپر پاور امریکا کے سفارت کاروں کو اپنے ملک میں مقید رکھا اور تاریخ رقم کر دی ۔ آج چالیس سال ہونے کو ہیں امریکا کا پابندیوں سمیت جنرل سلیمانی ، ابراہیم رہیسی پر مبینہ تمام حملے ناکامی کی طرف خط روانہ کی طرح واپسی کی طرف رواں ہیںایران کی اس پرعزم مثال دینے کے بعد علاقے کے باقی ممالک کی
قیاد توں کے ساتھ بہمانہ سلوک پر بے ساختہ نظر اٹھ جاتی ہے اور ارد گرد کے ممالک کا تقابلی جائزہ لینا پڑتا ہے ۔آپ کو دوسرے ممالک بشمول انڈیا، پاکستان ، مشرق وسطی اور تیسری دنیا کے اندر شورشوں ، لیڈروں کا آئے روز قتل، دہشت گردی کے واقعات کچھ زیادہ کثرت سے ملیں گے انڈیا میں مثال کے طور پررہنماﺅں میں مہاتمہ گاندھی اندرا گاندھی، راجیو اور سنجے گاندھی کے علاوہ سکھ رہنما بھنڈرانوالا کا قتل دیکھیں گے ۔ اسی طرح مشرق وسطی پر نظر ڈالیں تو مصرمیں انور سادات ،مرسی کا پس دیوار زنداںقتل،عراق میں صدام ، ترکی میں عدنان مندرس کی پھانسی،انڈوینیشیا میںسویکارنو کا تختہ الٹنا ، وغیرہ۔پاکستان میں حیران کن طور پر ان تمام ممالک سے زیادہ مقتولین وزارا اعظم شامل ہیں جن میں لیاقت علی خان ، ذولفقار علی بھٹو ، جنرل ضیا ، بے نظیر بھٹو ، فاطمہ جناح کی موت ،جنرل ضیا کے ساتھ کئی جنرل اوربیس افراد کا مارا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔جنری مصحف میر ، جنرل افتخار، جنرل سرفراز اور کئی فوجی دہشت گردی کے نام پر ان کے جہاز کریش کئے گئے۔اسی طرح انیس سو اکہتر کے بعد بنگلہ دیش میں شیخ مجیب، جنرل ضیا ، کے قتل کے بعد ابھی تک سکون ہے۔ مشرق وسطی کے پندرہ ممالک میں شاہ فیصل ، قذافی کے قتل کے بعد سکون ہے ، ترکی بشمول افغانستان امریکا کا ناٹوساتھی ہے وہاں بھی بظاہر شانتی ہے۔اگر امریکی مدد حاصل نہ ہوتی تو شائد اردوان بھی فوجی بغاوت کو نہ کچل سکتا

ای پیپر دی نیشن