تاریخ گواہ ہے کہ جس طرح حکمرانوں کی غلطیوں کا کفارہ قومیں ادا کیا کرتی ہیں اسی طرح یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ قوموں کی عزت نفس اور حمیت و غیرت کو ختم کرنے میں بھی ان حکمرانوں کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے جو بوجوہ ان پر مسلط ہو جایا کرتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے من مانے بالخصوص قوم کی اُمنگوں کے برعکس فیصلے ملکی مفادات کے لئے مضرت رساں ہی ثابت نہیں ہوا کرتے بلکہ خود حکمرانوں کے مستقبل کو بھی مخدوش بنانے کا موجب ہوا کرتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کے عوام قطعی طور پر اپنے حقیقی دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں مگر پاکستان کے موجودہ حکمران خدا جانے اس بات پر کیوں ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دیا جائے۔ اس حوالے سے حال ہی میں حکومت کی طرف سے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر سے شائع ہونے والے ایک اخبار کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کر رہا ہے اور اس سلسلے میں جلد ہی وفاقی حکومت کی طرف سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس روز حکومت پاکستان کی طرف سے پاکستان کے عوام کی منشاء کے برعکس ہمسایہ دشمن بھارت سے یہ ’’اظہار محبت‘‘ اخبار کی زینت بنا اسی روز بھارتی اسلحہ سے لیس دہشت گردوں نے کراچی ائرپورٹ پر معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ دہشت گرد خواہ کہیں کے بھی تھے، کسی بھی خطے اور ملک سے ان کا تعلق تھا مگر ان کے پاس بھارتی ساختہ گولہ بارود تھا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ بھارتی اسلحہ چلانے کی مکمل تربیت سے آراستہ تھے۔ اس طرح پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا جو سندیسہ دیا گیا اس کے جواب میں ان کی طرف سے پہلا تحفہ بھارتی ساختہ اسلحہ کا ملا۔ جس کے نتیجے میں کم و بیش پاکستان کے اڑھائی درجن سے زائد مایہ ناز اہلکار جام شہادت نوش کر گئے۔ خدا معلوم وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت ان کی کابینہ کے ارکان کو بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے کا کیوں جنون سوار ہے۔ جس بھارت کو حکومت اپنے عوام کی خواہشات کے برعکس پسندیدہ ملک قرار دینے پر سنجیدگی سے غور کرنے کے ’’واسطے‘‘ دے رہی ہے اس کا حال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت میں قید پاکستانی شہریوں کی جو فہرست بھیجی گئی تھی، ان کی رہائی کے بارے میں بھارت نے جواب دینا گوارا نہیں کیا جبکہ ایسے پاکستانی قیدیوں نے بھارتی جیلوں میں اپنی سزا کی مدت بھی پوری کر لی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں امن و امان کی صورتحال کو بحال رکھنے کے ضمن میں دونوں ملک پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے مگر اس حقیقت کا ادراک صرف اور صرف پاکستان ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ بھارت کی طرف سے سنجیدگی کے ساتھ اس کا مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی بھارت کے موجودہ متکبرانہ روئیے سے اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ حکمرانوں کی سوچ اور بھارت کے معاملے میں خوش فہمیوں کے پس پردہ کوئی اور مقاصد ہوں تو ہوں مگر بھارت کے معاملے میں ان کے دل میں جو نرم گوشہ محسوس کیا جا رہا ہے وہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس کا اندازہ اسی وقت ہو جانا چاہئے تھا جب وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے بھارت گئے تھے۔ انہوں نے نریندر مودی سے ملاقات کے دوران جو باتیں کیں وہ تاحال صیغۂ راز میں ہیں البتہ بڑی چالاکی کے ساتھ بھارتی حکومت نے اپنے میڈیا کے ذریعے اس ملاقات میں مودی کی باتوں کو زبان زدعام کرا دیا کہ مودی نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے جو دیگر باتیں کیں ان میں یہ بھی کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھارت سے تعاون کرے اور بھارت پر دہشت گردی کے حملوں کو روکے۔ اگرچہ یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، والا معاملہ تھا مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بلوچستان میں افغانستان میں موجود بھارتی کیمپوں میں تربیت یافتہ دہشت گردوں کی کارروائیوں سے آگاہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کیا جواب دیا۔ اس وقت کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات چند ہفتوں میں شروع ہوں گے اور میاں نواز شریف نے پاکستانی اخبارنویسوں کو بتایا کہ ’’میری اور نریندر مودی کی دوسری ملاقات ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ہو گی‘‘ مگر اب گذشتہ دنوں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے دونوں ملکوں کے مابین سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکرٹری خارجہ ملاقات کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں اور نہ ہی بھارت کی جانب سے اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ کے باہمی رابطے میں رہنے کا معاملہ طے ہوا تھا۔ پھر انہوں نے بھی کہا ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ستمبر میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات کے حوالے سے ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں جہاں ان کی بہت سی باتیں سنی ہوں وہاں رسمی طور پر اپنی طرف سے یہ بھی کہہ دیا ہو کہ دونوں ممالک کے مابین خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات ہونے چاہئیں اور چلتے چلتے یہ بات بھی لبوں پر آئی ہو کہ ستمبر میں امریکہ میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پھر ملاقات ہو گی۔ اب انہیں ایسی خبروں سے سرمو انحراف سے بھارتی قیادت کے خبث باطن کا اندازہ ہو جانا چاہئے۔ اس حوالے سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے بھی بھارت سے واپسی پر اگرچہ وزیراعظم کے دورہ بھارت کو مثبت قرار دیا تھا مگر ان کی پریس کانفرنس ہر لحاظ سے بے سروپا تھی۔
ایسے حقائق کی روشنی میں حکمرانوں بالخصوص وزیراعظم میاں نوازشریف کو بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے فیصلے پر عجلت کا مظاہرہ کرنے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے وسیع و عریض رقبے پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لئے اپنی قریباً ساڑھے سات لاکھ فوج کے ذریعے کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو کچلنے کے لئے جبر و استبداد کے ہر حربے سے کام لے رہا ہے۔ صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کی بدولت وہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستانی دریائوں پر اس لئے ان گنت بند باندھتا چلا جا رہا ہے کہ ان کے پانیوں کو پاکستان کی طرف آنے سے روک کر اس خطہ زمین کو بنجر میں تبدیل کرنے کے مذموم عزائم کو پورا کر سکے۔
کاش وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کے نام نہاد مشیران انہیں یہ تیاری کرانے کی اہلیت سے بہرہ ور ہوں کہ 1948ء میں ادارہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی تھی اس پر عمل درآمد کے بعد ہی بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی رہے گا۔ بھارت ایسا کرنے پر آمادہ ہو گیا ہوتا تو اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک بھارت کی تاریخ میں ایک لاکھ کشمیریوں نے خون ناحق کا جرم سیاہ کارنامہ نہ بنا ہوتا۔ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم نہ پچیس ہزار خواتین بیوہ ہوتیں۔ ہزاروں عورتوں کی بے حرمتی بھارتی سورمائوں نے کی۔ ان کی تعداد بھی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جو پس دیوار زنداں ہیں اور جو ہزاروں گرفتار کرکے مارے گئے۔ وہ الگ ہیں۔
کاش وزیراعظم کو سمجھایا جاتا کہ وزیراعظم بھارت کے کانوں میں یہ حقیقت ڈال دی جاتی کہ کشمیر کے مظلوم و بے بس اور بھارتی افواج کی ظلم کی چکی میں دن رات پستے ہوئے عوام اسی راہ پر گامزن ہیں۔ جس راہ پر گامزن ہو کر ہندو کانگریس کی قیادت نے ’’بھارت‘‘ بنایا تھا۔ انہوں نے بھی برطانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کئے رکھا۔ گاندھی اور نہرو سے لے کر اس سطح کے دیگر تمام رہنمائوں سمیت ہزاروں کارکنوں کو برطانوی پولیس کے مظالم سہنے پڑے تھے کیا وہ سبھی دہشت گرد تھے؟؟؟ اور پھر حضرت قائداعظمؒ کی زیرقیادت آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مولانا حسرت موہانیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ سمیت ہزاروں مسلم لیگیوں نے قید و بند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کیں، آزادی وطن کی خاطر غیرملکی غاصبوں کے خلاف تحریک آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد قرار دینا بھارت کی اس تمام انجہانی قیادتوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو بھارت کی آزادی کی راہ میں پابند سلاسل ہوئے تھے!۔
اسی طرح کشمیری عوام بھی اپنے وطن سے باہر کی جابر و ظالم طاقت بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مصروف جدوجہد ہیں۔ جنہیں کسی بھی لحاظ سے دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا، دہشت گرد وہ ہیں جو خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے اسلحی تربیت دے کر دوسرے ممالک میں وہاں کے لوگوں کو خاک و خون میں نہلا کر وہاں کے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ جس طرح افغانستان میں بھارت کے قونصل خانے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تخریب کاری کے لئے بھیج رہے ہیںمگر یہ بات ذہن میں رہے کہ جس قسم کی تحریک آزادی کشمیر میں جاری ہے ایسی تحاریک جلد یابدیر بالاخر کامیابی ہی پر منتج ہوا کرتی ہیں۔کاش پاکستان کے وزیراعظم کو بھارت قیادت کے سامنے اس قسم کی حقیقتیں واشگاف الفاظ میں کہنے کا یارا ہوتا! حق و صداقت کی دو دھاری تلوار پر چلنے کا یہ درس اس عظیم ہستی بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کے اوراق زندگی دیتے ہیں جس کی مسندپر وزیراعظم میاں نوازشریف براجمان ہیں۔ وہی آج کل مسلم لیگیوں کے سب سے بڑے دھڑے کے سربراہ ہیں۔ بھارت کے مجرمانہ عزائم کے ہوتے ہوئے اسے پسندیدہ ملک قرار دینا؟؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو! ورنہ۔ اس ملک کا چپہ چپہ پکارے گا:۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے ’’چراغاں‘‘ نے مجھے