سرکاری افسران کی بدعنوانی آخر کب تک؟


ڈاکٹر ناصر خان
بیوروکریسی کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے کا بنیادی ستون ہوتی ہے، جو عوام کو خدمات فراہم کرنے، قانون کی بالادستی قائم رکھنے، اور حکومتی پالیسیوں کو عملی شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک منظم اور شفاف بیوروکریسی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہوتی ہے، کیونکہ یہ ادارے ریاستی نظام کو فعال رکھتے ہیں اور عوامی مسائل کو بروقت حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں بیوروکریسی ایک ایسے نظام ہے جو نہ صرف غیر موثر ہے بلکہ شفافیت کے فقدان کا شکار بھی ہے۔ ذاتی مفادات، سیاسی دباو اور بدعنوانی نے اس نظام کو ایک ایسا ذریعہ بنا دیا ہے جو عوامی فلاح کے بجائے طاقت اور مفاد پرستی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور حکومتی اعتماد بھی متاثر ہوتا ہے۔
بیوروکریسی میں سب سے بڑا مسئلہ ریڈ ٹیپ (Red Tape)اور کرپشن کا ہے، جو اس نظام کی افادیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ ریڈ ٹیپ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں غیر ضروری قواعد و ضوابط، پیچیدہ پروسیجرز، اور سرکاری کاموں میں غیر ضروری تاخیر پیدا کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف عوام کے مسائل حل ہونے میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ یہ صورتحال عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ دوسری جانب، کرپشن اس نظام کو مزید تباہی کی طرف لے جاتی ہے، جہاں افسران ذاتی مفادات کے لیے عوامی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ رشوت اور غیر قانونی طریقے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کر دیتے ہیں اور ریاستی نظام کو کمزور کرتے ہیں . ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کے لیے اوسطاً 25 مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ 2024 کی Ease of Doing Business Indexپاکستان کی رینکنگ 138 پر ہے، جو بیوروکریسی میں ریڈ ٹیپ کی سنگین حالت کو ظاہر کرتی ہے۔
بیوروکریسی میں کرپشن پاکستان کی معیشت اور معاشرے کے لیے ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کرپشن پرسپشن انڈیکس (CPI) میں 180 ممالک میں سے 140 ویں نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ بدعنوانی حکومتی اداروں میں ایک عام مسئلہ بن چکی ہے۔ بیوروکریٹس رشوت لے کر عوام کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہیں، اور فیصلوں میں شفافیت کی کمی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔
پاکستان میں ایک عام بیوروکریٹ بدعنوانی مختلف طریقوں سے کرتا ہے، جن میں سب سے زیادہ عام طریقہ رشوت لینا ہے۔ عوام سے سرکاری کاموں کی تکمیل کے لیے رشوت طلب کی جاتی ہے، چاہے وہ ایک معمولی درخواست کی منظوری ہو یا بڑے پروجیکٹس کے فنڈز کی منظوری۔ بیوروکریٹس اکثر پیچیدہ قواعد و ضوابط کا سہارا لے کر عوام کو غیر ضروری تاخیر کا سامنا کرواتے ہیں تاکہ وہ مجبور ہو کر رشوت دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس کے علاوہ، بدعنوان بیوروکریٹس ٹھیکوں میں خردبرد، جعلی کاغذات تیار کرنے، اور حکومتی وسائل کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے جیسے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ سیاسی دباو اور اثر و رسوخ کے باعث ان کے خلاف کارروائی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے، جو انہیں مزید بدعنوانی کے لیے حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں نظام کمزور ہوتا ہے، عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے، اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
حکومت آج تک بدعنوان بیوروکریٹس کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اس لیے نہیں اٹھا سکی کیونکہ اس مسئلے کی جڑیں نظام کے اندر گہری ہیں۔ سب سے پہلی وجہ سیاسی مداخلت ہے، جہاں اکثر بدعنوان بیوروکریٹس طاقتور سیاسی شخصیات کے زیرِ اثر ہوتے ہیں اور ان کے ذاتی مفادات کی تکمیل میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بدلے انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ احتساب کے اداروں کا کمزور اور غیر موثر ہونا ہے، جو یا تو دباو میں آ کر خاموش رہتے ہیں یا خود بدعنوانی کی لپیٹ میں ہوتے ہیں۔
مزید برآں، بیوروکریسی کے اندر ایک مضبوط نیٹ ورک ہوتا ہے، جہاں افسران ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کے جرائم کا پردہ فاش نہ ہو۔ قوانین اور قواعد و ضوابط میں موجود خامیاں بھی ان بدعنوان افراد کے لیے راہیں ہموار کرتی ہیں۔ عوامی دباو کی کمی اور بدعنوانی کے خلاف مستقل جدوجہد نہ ہونے کی وجہ سے بھی حکومت پر زور نہیں ڈالا جاتا کہ وہ سخت اقدامات کرے۔
پاکستان میں بیوروکریسی کی واضح کرپشن اور بدعنوانی کی مثالیں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کے ٹھوس شواہد بھی اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ بڑی بڑی رپورٹوں، تحقیقاتی کمیٹیوں، اور میڈیا انکشافات کے ذریعے بدعنوانی کے یہ معاملات بے نقاب کیے جاتے ہیں، لیکن حکومت ان کے خلاف کوئی موثر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہتی ہے۔ یہی صورتحال ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
پاکستان کے سرکاری محکموں میں ایک عام آدمی کے لیے اپنی آواز پہنچانا اور اپنے مسائل حل کروانا تقریباً ناممکن بن چکا ہے۔ بیوروکریسی کے پیچیدہ نظام، غیر ضروری قواعد و ضوابط، اور غیر سنجیدہ رویوں نے عام شہری کے لیے سرکاری خدمات تک رسائی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ ہر محکمے میں سفارش، رشوت، یا کسی بااثر شخص کا حوالہ ضروری سمجھا جاتا ہے، ورنہ فائلیں مہینوں تک دفتروں کی میزوں پر دھول کھاتی رہتی ہیں۔ایک عام شہری جب اپنے جائز مسائل لے کر کسی سرکاری دفتر جاتا ہے تو اسے مختلف بہانوں سے چکر لگوائے جاتے ہیں، جیسے کہ "آفیسر موجود نہیں"، "فائل مکمل نہیں"، یا "مزید دستاویزات کی ضرورت ہے"۔ حتیٰ کہ اگر تمام قانونی تقاضے پورے کر بھی لیے جائیں، تب بھی اکثر عملہ کام میں تاخیر کر کے عوام کو بے بس کرتا ہے تاکہ وہ مجبور ہو کر رشوت دینے پر آمادہ ہو جائیں۔
سرکاری محکموں سے رشوت اور بدعنوانی ختم کرنے کے لیے سب سے اہم قدم شفافیت کا نفاذ اور خدمات کو ڈیجیٹلائز کرنا ہے۔ تمام سرکاری کاموں اور خدمات کو آن لائن پلیٹ فارمز پر منتقل کیا جائے تاکہ عوام کو براہِ راست محکمے کے افسران سے رابطہ نہ کرنا پڑے۔ آن لائن درخواستوں، ٹریکنگ سسٹمز، اور خودکار منظوری کے نظام سے نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ کرپشن کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ پاکستان میں بھی ای-گورننس کے ذریعے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
جو افسران کرپشن میں ملوث پائے جائیں، ان کے خلاف سخت اور موثر کارروائی ضروری ہے تاکہ بدعنوانی کے کلچر کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ ایسے افسران کو فوری طور پر سرکاری ملازمت سے مستقل طور پر فارغ کر دینا چاہیے تاکہ وہ دوبارہ کسی بھی سرکاری ادارے میں کام نہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کی غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی جائیدادوں کو ضبط کیا جائے اور ان کی مکمل تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں تاکہ شفافیت برقرار رہے۔اس کے علاوہ، بدعنوان افسران کو سخت قانونی سزا دی جائے، جن میں قید کی سزا بھی شامل ہو۔ انہیں جیل بھیج کر یہ واضح پیغام دیا جائے کہ کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ سزائیں نہ صرف انفرادی سطح پر اثر ڈالیں گی بلکہ دیگر افسران کے لیے بھی ایک مثال قائم کریں گی، جو انہیں بدعنوانی سے باز رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔میڈیا کے ذریعے ان کارروائیوں کو عوام کے سامنے نمایاں طور پر پیش کیا جائے تاکہ ہر شہری کو یہ معلوم ہو کہ بدعنوانی کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں۔ ٹی وی، اخبارات، اور سوشل میڈیا پر بدعنوان افراد کی نشاندہی اور ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو بار بار دکھایا جائے۔ اس سے عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا اور کرپشن کے خلاف اجتماعی شعور کو فروغ ملے گا، جو بدعنوانی کے خاتمے کے لیے لازمی ہے۔
اگر حکومت نے بدعنوانی کے خلاف سخت رویہ اختیار نہ کیا، تو نظام اسی طرح غیر فعال اور عوام کے لیے تکلیف دہ بنا رہے گا، اور بیوروکریٹس اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے رہیں گے۔ نتیجتاً، کرپشن کے اسکینڈلز منظر عام پر آتے رہیں گے، لیکن ان میں ملوث افراد بدستور اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے۔

ڈاکٹر ناصر خان

ای پیپر دی نیشن