اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
انسانی اسمگلنگ بہت بڑا انسانی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ ایشیا ءسے تعلق رکھنے والے بیشتر ممالک اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ جبکہ پاکستان بھی انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ حال ہی میں لیبیا سے غیر قانونی طور پر یورپ (یونان) جانے والے پاکستانیوں کی کشتی سمندر میں ڈوبنے کی خبر آئی تو پنجاب کے بہت سے شہروں میں کہرام مچ گیا۔ یہ شہر سیالکوٹ، اوکاڑہ، گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد اور منڈی بہاﺅالدین تھے جہاں سے اچھے مستقبل کی خواہش لیے بہت سے نوجوان انسانی اسمگلروں کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ لیبیا سے انہیں غیر قانونی طور پر سمندر کے راستے انسانی اسمگلروں نے یونان پہنچانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اُن کی کشتی گہرے سمندر میں حادثے کا شکار ہو گئی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔ ہلاک ہونے والے نوجوانوں نے یورپ جانے کے لیے انسانی اسمگلروں کو 85لاکھ روپے بھی دئیے تھے۔
اس اندوہناک واقعہ کا وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی نوٹس لیا۔ فوری طور پر پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں ہنگامی میٹنگ طلب کر لی جس میں وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے انسانی اسمگلروں کے لیے سخت قانون سازی، اُن کی سرکوبی اور عبرت کا نشان بنانے جیسی ہدایات جاری کیں۔
انسانی اسمگلنگ درحقیقت غلامی کی جدید شکل ہے اور یہ مکروہ دھندہ دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ وہ جرم ہے جس میں انسانی اسمگلر اپنے مفاد کی خاطر پیسہ حاصل کرنے کے لیے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں۔ اچھے مستقبل کے لیے انہیں یورپ جانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ اس کے عوض اُن سے لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ رقم متاثرہ افراد کے اہلخانہ قرض اٹھا کر، گھر کے زیورات بیچ کر انسانی اسمگلروں کو ادا کرتے ہیں۔ متاثرہ افراد یورپ تو نہیں پہنچ پاتے، بدلے میں ذلت، رسوائی اور موت ملتی ہے۔
2024ءجاتے جاتے یہ سانحہ دے گیا۔ کشتی حادثے میں نوجوانوں کی ہلاکت سے ہر پاکستانی دکھی اورصدمے سے دوچار ہوا۔ یہ غیر قانونی تارکین وطن لیبیا کے علاقے تبروک سے یونان جا رہے تھے لیکن تعداد زیادہ ہونے کے باعث کشتی حادثے کا شکار ہو گئی۔ کشتی ڈوبنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں کافی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جون 2023ءمیں بھی یونان کے ساحلی مقام پر تارکین وطن کی کشتی ڈوبی، جس کے نتیجے میں درجنوںپاکستانی اپنی جان گنوا بیٹھے۔ جبکہ اس سے قبل 2023ئی کے اوائل میں اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 100فراد جاں بحق ہوئے۔
حالیہ دنوں میں ملک میں امن وامان کی صورت حال بہت خراب رہی۔ جس سے غربت اور بے روزگاری میں اَضافہ ہوا۔ اس کے باعث بیرون ملک جانے کے رجحان میں اضافہ ہوااور نوجوانوں نے حصول روزگار اور بہتر مستقبل کے لیے یورپ جانے کا قصد کیا۔ اس کے لیے اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال دیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہاﺅالدین اور پنجاب کے دیگر شہروں سے تھا۔ یہ نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھے جو انہیں بہتر مستقبل کے لئے باہر جانے کی ترغیب دیتے اور سبز باغ دکھاتے۔ بہتر مستقبل کا خواب نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے پر اکساتا اور وہ باہر جانے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہو جاتے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس گھناﺅنے نیٹ ورک سے ایک ہزار سے زیادہ کریمنل منسلک ہیں جو یہ غیر قانونی کاروبار چلا رہے ہیں۔ یہ کاروبار اب تک ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔ تاہم ان میںسے کچھ خوش قسمت ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جبکہ بیشتر سمندری لہروں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یا انہیں گرفتار کر کے ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی اصل تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران 4لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا۔ انسانی اسمگلر ایک ایسا ظالم مافیا ہے جو غریب افراد کو جھوٹے اور سنہری خواب دکھاتا ہے اور وہ جب پوری طرح جال میں پھنس جاتے ہیں تو اُن سے یورپ کے نام پر بڑی بڑی رقمیںبٹوری جاتی ہیں۔ یہ کیسی بات ہے کہ یہ افراد پیسے دے کر انسانی اسمگلرز سے اپنی موت خریدتے ہیں۔
بیرون ملک جانے کی غیر قانونی کوشش میں کنٹینرز میں دم گھٹنے سے ہلاک ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کی داستانیں بھی اتنی المناک ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، UNDPنے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا رجحان وباءکی صورت اختیار کر جائے گا۔ انسانی اسمگلنگ سے متعلق بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ سے جہاں ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، وہاں دوسری طرف غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کی بڑی تعداد اپنی قیمتی جانیں گنوا رہی ہے۔ جو یقینا ایک لمحہ¿ فکریہ ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث انسانی اسمگلرروں اور ان کے ایجنٹوں کے نام ECLمیں ڈالے گئے ہیں۔ جبکہ اسمگلرز اورایجنٹوں کی جائیدادیں ضبط کر نے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلی بار انسانی اسمگلرز کی معاونت کے جرم میں ملوث ایف آئی اے کے 35افسران اور اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ جو انسانی اسمگلروں اور اُن کے سہولت کاروں کے لیے ایک سخت پیغام ہے۔ جس سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات بھی رونما نہیں ہوں گے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی اولاد کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انسانی اسمگلنگ میں بعض غیر ملکی بھی ملوث ہیں۔ ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق ایبٹ آباد میں متعین ایف آئی اے کی ٹیم نے ہری پور میں واقع افغان کیمپ نمبر 13میں کارروائی کے دوران ایک افغان شہری عبدالواسع کو گرفتار کیا جس کے موبائل فون سے انسانی اسمگلنگ اور یونان کشتی حادثے سے متعلق اہم شواہد ملے۔ گرفتار افغان انسانی اسمگلر کو مزید تفتیش کے لیے ایبٹ آباد سرکل منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ملزم سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
انسانی اسمگلنگ میں ایف آئی اے کے بعض افسران اور اہلکاروں سے متعلق ٹھوس شواہد ملنے کے بعد اُن کی برطرفی، گرفتاری اور تفتیش میں مزید پیش رفت کے بعد ایف آئی اے کے ایسے افسران اور اہلکاروں میں خوف کا احساس پایا جاتا ہے جو کبھی کسی وقت انسانی اسمگلروں کے ساتھ رابطے میں رہے یا جنہیں خدشہ ہے کہ اُن کے رابطے انسانی اسمگلروں سے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایف آئی اے کے 35افسران اور اہلکاروں کے خلاف ایکشن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی اور انہیں مزید وقت دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ایف آئی اے میں ہونے والا ایکشن اور گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ کو کالی بھیڑوں سے صاف کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اب کسی کو کسی سطح پر بھی کوئی معافی نہیں ملے گی۔
حقیقت میں انسانی اسمگلنگ بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے۔ جس پر قابو پانے کے لیے سخت قانون سازی اور سزاﺅں کی ضرورت ہے۔اگرچہ حکومت نے ایسے اعلانات کئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔ اسی صورت میں ہم انسانی اسمگلنگ پر قابو پا سکیں گے۔ یونان کشتی حادثے کے بعد اس کا خاتمہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ اس جیسا کوئی المناک حادثہ پھر سے رونما نہ ہو سکے۔