سپریم جوڈیشل کمشن نے سپریم کورٹ میں 6 مستقل اور ایک قائم مقام جج کی تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا۔ کمیشن نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق‘ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس شفیع صدیقی، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس ہاشم کاکڑ، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس اشتیاق ابراہیم، سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور اور پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد کی بطور جج سپریم کورٹ تقرر کی منظوری دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ان کا تقرر ایک سال کے لیے کیا گیا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں ٹیکس مقدمات کے بڑھتے بوجھ کی وجہ سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی تعیناتی آئین کی دفعہ 181 کے تحت کی گئی ہے۔قائم مقام جج بننے کے بعد جسٹس گل حسن اورنگزیب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ قائم مقام جج کی تعیناتی مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے، کوئی آئینی مدت مقرر نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں ججز تعینات کرنے کا معاملہ مؤخر کردیا گیا۔
پاکستان کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جو عدالتی نظام پر دباؤ اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں تقریباً 4 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے۔ ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی مجموعی تعداد 24 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جن میں روز افزوں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔زیر التوا مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے، جو عدالتی نظام کی مؤثر کارکردگی کے لیے ایک چیلنج ہے۔مقدمات کے اندراج و فیصلوں میں توازن کیلئے عدالتوں اور ججوں کی تعداد میں اضافہ بھی ایک حل گردانا جاتاہے۔اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بادی النظر میں لوئر کورٹس ،ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
لاہور سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ جج ٹرانسفر کیے گئے۔ان میں جسٹس سرفراز ڈوگر بھی شامل ہیں جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق کے بعد سب سے سینئر ہیں۔ ان کو پیونی جج بنا دیا گیا۔اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی طرف سے چیف جسٹس کو ری پریزنٹیشن میں کہا گیا کہ جج جس ہائی کورٹ میں تعینات ہوتا ہے اسی کا حلف لیتا ہے۔ ٹرانسفر ہونے پر ججز کو نیا حلف لینا ہوگا۔ سنیارٹی اس کے مطابق ہوگی۔یہ ری پریزنٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ان ججز کو نئے حلف کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اْدھر سپریم کورٹ کے چار ججز کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کے فیصلے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ طے ہونے تک ملتوی کرنے کا کہا گیا۔ یہ تقاضہ کرنے والے عدالتِ عظمیٰ کے فاضل ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ اول الذکر دو جج صاحبان جوڈیشل کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمشن کے اجلاس کا جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر‘ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی نے بائیکاٹ کیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا اعتراض تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک اجلاس مؤخر کیا جائے۔ اس اعتراض پر ووٹنگ ہوئی اور اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ اجلاس جاری رکھا جائے گا۔اسی اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے لیئے ججوں کے ناموں کی منظوری دی گئی۔
6 نئے مستقل ججز کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں اب مستقل ججز کی تعداد 22 ہو گئی ہے جبکہ ایک قائم مقام اور دو ایڈہاک ججز ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے جج لائے گئے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ میں لائے جانے والے ایڈہاک ججز نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔دیگر ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس میں بھی اسامیوں کے مطابق ججز لائے جا رہے ہیں۔ایسی تعیناتیوں سے یقینی طور پر زیر التوا مقدمات کے تیزی سے فیصلے ہو سکیں گے۔
اْدھر 26 ویں آئینی ترمیم اور جوڈیشل کمشن کے اجلاس کے خلاف وکلاء ایکشن کمیٹی نے احتجاج جاری رکھا جس کے دوران اسلام آباد کے سرینا چوک سے سپریم کورٹ جانے کی کوشش کی گئی تو وکلاء اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ پولیس نے احتجاجی وکلاء پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ وکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب مارچ کا آغاز کیا۔ اس دوران انتظامیہ نے سرینا چوک کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا تھا۔ انتظامیہ نے ریڈ زون کو بھی مکمل سیل رکھا۔ وکلاء اس وقت ڈی چوک پہنچ گئے جہاں انہوں نے دھرنا دے دیا۔اس کے بعد بھی پولیس اور وکلا کے مابین آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔
ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعیناتیاں 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہو رہی ہے۔ یہ ترمیم آئین کا حصہ بن چکی ہے۔آئین اور قانون کی بات کی جائے تو عمومی سوچ پائی جاتی ہے کہ پارلیمنٹیرینز ،جج صاحبان اور وکلا سے زیادہ پاکستان میں آئین کو کوئی اور طبقہ نہیں سمجھ سکتا۔جب تک آئین میں یہ ترمیم موجود ہے اس وقت تک اسی کے مطابق امور اور معاملات چلنے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں گو تحریک انصاف نے ووٹ نہیں دیا تھا مگر ان کی تجاویز کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو وہ صرف آئین میں ترمیم کر کے ہی لائی جا سکتی ہے۔ آج سیاسی معاشی اور امن و امان کی صورتحال ہر پاکستانی پر عیاں ہے۔ ایسے میں ایک وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ملک و قوم مزید افراتفری اور انتشار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سسٹم میں انتشار مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا جس کے اثرات پہلے ہی سے خمیدہ اقتصادیات پر بھی پڑیں گے‘ لہٰذا سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچنے اور وسیع تر اتحاد کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔