ڈاکٹر طاہر بھلر
دوسری قسط ۔قارئین ذراملاحظہ فرمائیں کہ عالمی صیہونی سازشوں کے باعث پاکستان بننے کے بعد لیاقت علی خان کا امریکی ہٹلر نما صدر، ٹرومین جو روز ویلٹ جو دماغ کی شریان پھٹنے سے اچانک مر گیا ، کے مرنے کے بعد بغیر الیکشن لڑے امریکی صدر کی کرسی پر جا بیٹھا بے شک ایسے ہی بعد میں لنڈن بی جانسن کینیڈی کے قتل کے بعد اور کئی دوسرے امریکی صدور ایسے ہی صدارت کی کر سی پر متمکن ہوئے، لیکن یہ ٹرومین صاحب اس وجہ سے خاصے بدنام ہوئے کہ اس نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم برسانے میں ذرہ بھر تامل سے کام نہ لیا تھا ۔ اسی نے امریکا میں سی آی اے جو آج تمام دنیا میں فساد کی جڑ ہے کو منظم کیا، کولڈ وار میں نیٹو بلاک کی بنیاد رکھی، کوریا میں امریکی فوجی بھی اتار دئے تھے اور پاکستان کے مرد آہن لیاقت علی خان کو جب یہ دھمکی دی کہ ایران میں تیل کی تنصیبات پر ٹھیکے کے لئے مائل کر ئے تو سی آی اے کی ڈی کلاسی فائیڈ ڈستاویزات کے مطابق لیاقت علی خان جیسے بطل حریت نے دھمکی نما فون کال پر دلالی کرنے والے کردار سے نہ صرف صاف انکار کردیا بلکہ امریکی صدر ٹرومین کو جناب لیاقت علی خان نے یہ تک کہا کہ آپ اب فوری طور پر پاکستان میں اپنے امریکی اڈے بھی خالی کریں جو سپر پاور امریکا کے صدرٹرومین کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہوا اور امریکی صدر ٹرومین ذاتی طور پر ان کی جان کا دشمن بن گیا۔ سی آی اے کی دستاویزات کے مطابق جو امریکی تیس سالوں بعد عام پڑھنے کے لئے کھول دیتے ہیں ، اس میںامیریکی صدر کی نیشنل سیکورٹی کونسل کی انیس سو اکیاون میں ان میٹنگز کا وقت اور تاریخ بھی موجود ہے ۔ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیق کرنے والا جہاز کریش ہوا کیونکہ دہ قاتل کے ہمدردوں تک پہنچ چکے تھے۔ آج تک اس مردد قلندر جس نے صرف پاکستان کی خود مختاری کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اس کے قاتل بعد میں زندہ دندناتے رہے اور آج تک ہمار ے ادارے اور عدالتوں میں لیاقت علی خان کے اندھے ، اندوھناک قتل کی فائلیں، جس میں قاتل کو بھی اسی لمحے قتل کر دیا گیا تا کہ کوئی سوراغ تک نہ ملے، چیخ چیخ کر قاتل کو تلاش کرنے لئے قوم اور اس کے مشہور زمانہ اداروں کو پکار رہے ہیں لیکن آج تک جواب نہ دارد۔ ان واقعات اور ایران کے وزیراعطم مصدق کے خلاف امریکی مداخلت کے ثبوت ایاں ہیں۔ پاکستانی لیڈر جن کا نام دولفقار علی بھٹو تھا بھی ارد گرد کے وہ پر اسرار خطرات کو سمجھنے میں کثر نفسی یا ضرورت سے زیادہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوے اس غلط فہمی میں کہ وہ ان انگیریزوں کے ساتھ آٹھ سال سے زیادہ یو این او میںبحیثیت وزیرخارجہ وقت گزارنے کے بعد ان کو اندر سے جان چکے ہیں ریڈ لائن کراس کر بیٹھے۔ وہ یہ بھول گئے کہ میکاولی اور ڈارون کے پیروکار اس ترقی یافتہ تمام مغرب اندھی طاقت کا استعمال عین اپنا بنیادی حق قرار دیتے ہیں جس طرح دوسری قوموں کو انسانی بنیادی حقوق کا درس دینا فرض سمجھتے ہیں۔ نکسن اپنی کتاب،، لیڈرز،، میں لکھتا ہے کہ جمہوریت کے ابا جان ابراہام لنکن نے اٹھارہ سو چوسٹھ میں امریکی خانہ جنگی میں اندھی طاقت کا استعمال کیا تھا اور اس کو جائز قرار دیتے ہویے لنکن خود کہتا ہے کہ مجھے آئین پر عمل نہ کرنے کی سرزنش کی جاتی ہے کوئی بھلا مجھے یہ بتائے کہ اگر ملک امریکا ہو گا تو میں آئین پر عمل کرسکوں گا۔نکسن اپنی کتاب میں یوں لکھتا ہے ،،،لنکن نے قوانین توڑے،آئین کی خلاف ورزی کی، بنیادی حقوق کو غصب کیا،، اس کا مطمع نظر نظریہ ضرورت تھی، وقت کی ضرورت تھی ۔ یہی میکاولی کا نظریہ تھا جو آج کل تمام مغرب کے جمہور ئت، ہاورڈ اور آکسفورڈ جیسے اداروں سے تعلیم یافتہ کے دعوداروںکے کردار پر ہم جیسوں کو ان کے قول و فعل میں تضاد پرانگلی اٹھانے پر حق بجانب قرار دیتا ہے ہیں کہ غزہ اور کمزور ممالک میں کہاں ہیں ان کے انسانی حقوق اخلاقیات ، نظریات کی عملیت کی باتیں، کیا پھر چانکیہ، میکاویلی ، کے رموز ریاست میں ہر حربے کو جائز قرار دینا ہیگل نٹشے کی عصبیت ، ڈارون کے،،، سرواﺅل آف فٹیسٹ ،، اور جنگ اور محبت میں ہر جائز ناجائزپر عمل کرنے والے اپنے تئیں عملیت پسند حکمرانوں کا روپ دھار کرجمہوریت کا جعلی لبادہ اوڑھ کر دنیا کے لئے جمہوریت کیمالا جپتے کو بہتے خون پر کوئی فکر ، تردد یا خوف نطر آرہا ہے نہیں نہیں قارئین بلکہ ہم معصوم ٹھہرے کہ یہی تو وہ ہیں جنہوں نے ایٹم بم تک گرانے میں کسی تامل ، ججھک تک کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ۔ جاری ہے۔