نوائے وقت کی جاوداں میراث(2)

اپنے قیام کے اولین دن سے نوائے وقت نے خود کو حق گوئی، قومی حمیت اور نظریاتی استقامت کے ایک ناقابلِ تسخیر قلعے کے طور پر منوایا۔ اس نے مسلمانوں کے عزم و استقلال کو جِلا بخشی، انہیں ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے یکجا کیا اور تحریکِ پاکستان کے فکری و سیاسی رخ کو مزید واضح کیا۔ اس کا بیباک صحافتی بیانیہ اور تحریکِ آزادی سے غیر متزلزل وابستگی بالآخر 1947ء میں پاکستان کے قیام پر منتج ہوئی۔  ایک ایسا تاریخی کارنامہ، جس میں نوائے وقت کا کردار ہمیشہ یادگار و زندہ جاوید رہے گا۔
تاہم، حمید نظامی کی درخشاں صحافتی بصیرت کو تقدیر نے وقت سے پہلے ہی محدود کر دیا۔ 25 فروری 1962ء کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو ان کے انتقال نے پاکستانی صحافت میں ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جو ناقابلِ تلافی محسوس ہوتا تھا۔ مگر ان کی میراث ماند پڑنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ ایک نئی آب و تاب کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی، مجید نظامی کی قیادت میں مزید فروغ پانے کے لیے تیار تھی۔
 13 اپریل 1928ء کو پیدا ہونے والے مجید نظامی عمر میں اپنے بھائی حمید نظامی سے تیرہ سال چھوٹے تھے، مگر ان کے اندر سچائی، حب الوطنی اور نظریاتی وابستگی کا وہی جوش و جذبہ موجزن تھا۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اعلیٰ تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی اور بعدازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1954ء میں وہ مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے لندن روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نوائے وقت کے سیاسی نامہ نگار کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ دیارِ غیر سے ان کی تحریریں اور رپورٹس پاکستان کے فکری و سیاسی مکالمے کو مسلسل جِلا بخشتی رہیں، یوں نوائے وقت کی صحافتی ساکھ پاکستان سے لے کر عالمی سطح تک ایک موثر آواز کے طور پر قائم رہی۔ نوائے وقت کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کن موڑ1962ء میں حمید نظامی کے سانحہ ارتحال کے بعد آیا جب مجید نظامی پر ایک عظیم ذمہ داری آن پڑی۔ وہ ایک غیر متزلزل عزم کے ساتھ پاکستان واپس لوٹے اور اپنے مرحوم بھائی کی نظریاتی اور صحافتی وراثت کو سنبھالنے کا بیڑا اٹھایا۔ بطور مدیرِ اعلیٰ ، انہوں نے اس عہد کی تجدید کی کہ نوائے وقت کی بنیاد جن نظریات پر رکھی گئی تھی، ان کی حفاظت میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ نوائے وقت کو ایک صحافتی ادارے سے میڈیا سلطنت تک لے جانامجید نظامی کی قیادت میں نوائے وقت ایک ناقابلِ تسخیر صحافتی قوت بن کر ابھرا۔ انہوں نے اس کی رسائی اور دائرہ کار کو مزید وسعت دی، اور اسے اردو صحافت تک محدود رکھنے کے بجائے انگریزی زبان میں بھی متعارف کرایا۔
 روزنامہ Nation The کی اشاعت عمل میں آئی، جس نے عالمی سفارتی، سیاسی اور فکری حلقوں میں بھی اپنی پہچان بنائی۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر اشاعتی منصوبے اور ایک ٹیلی ویژن چینل بھی شروع کیا، جس نے نوائے وقت کو پاکستان کے میڈیا منظرنامے میں ایک ناقابلِ فراموش ستون بنا دیا۔ مجید نظامی صرف ایک مدیر نہیں، بلکہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ایک بیباک محافظ بھی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز بلند کی اور پاکستان کے قومی مفادات کا زبردست دفاع کیا۔ ان کی تحریریں اور اداریے سیاسی جبر، قومی خودمختاری پر سودے بازی، اور غیر ملکی دبائو کے خلاف ایک مضبوط دیوار ثابت ہوتے رہے۔سیاسی حکمرانوں کے دبائو‘ دھمکیوں اور سختیوں کے باوجود مجید نظامی نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ غیرجانبدار، دوٹوک اور بیباک رہے، چاہے اس کی قیمت انہیں کسی بھی شکل میں چکانی پڑی۔ ان کا صحافتی مزاج خود مختار اور آزاد پاکستان کی علامت تھا، اور وہ ہر اس پالیسی کے خلاف کھڑے رہے جو قومی وقار سے متصادم تھی۔26 جولائی 2014ء کو مجید نظامی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کا نام پاکستان کی صحافتی، فکری اور نظریاتی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
 نظامی برادران نے اپنی بے مثال بصیرت، قربانی اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو تشکیل دیا بلکہ قومی نظریاتی اساس کو بھی تقویت دی۔ نوائے وقت کی تاریخ ایک درخشاں یادگار ہے، جو اس کی نظریاتی استقامت، قومی خدمات اور صحافتی دیانت کی گواہ ہے۔ 1940ء سے لے کر آج تک، نوائے وقت نے صحافت کو محض خبر رسانی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ایک قومی فکری تحریک کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ ڈیجیٹل دور کے چیلنجز کے باوجود، نوائے وقت آج بھی اپنی غیر متزلزل صحافتی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے فکری و نظریاتی مستقبل کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اخبار ہمیشہ سچائی، آزادی، قومی وقار اور صحافتی دیانت کے اصولوں پر قائم رہا ہے اور مستقبل میں بھی پاکستان کے نظریاتی و صحافتی استحکام کا ترجمان بنا رہے گا۔ رواں ماہ 23 مارچ کو نوائے وقت کی مسلسل اشاعت کے 85 برس مکمل ہو رہے ہیں اور اس ادارے کیلئے یہ فخر کی بات ہے کہ آبرومندی والی نظریاتی صحافت کا جو پرچم حمید نظامی نے تھاما اور بلند کیا وہ مجید نظامی نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے مزید روشن اور مزید بلند کیا جبکہ نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر اصولی نظریاتی صحافت کا یہ کٹھن سفر رمیزہ مجید نظامی نے اسی نیک جذبے کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے جسے چیف اپرٹنگ افسر نوائے وقت لیفٹیننٹ کرنل(ر) سید احمد ندیم قادری کی نوائے وقت کے اجرا سے متعلق قائداعظم کے فرمان کو نوائے وقت کی پیشانی کا حصہ بنانے کی صائب تجویز نے مزید تابناک بنا دیا ہے۔ خدا اس ادارے کوتعمیرِ ملک و ملت کیلئے اسی طرح قائم اور جاری و ساری رکھے۔ آمین۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن