اظہار رائے پر پابندی کی باتیں چار سْو ایسے گْونج رہی ہیں گویا ’’آسمانوں میں بربادیوں کے مشورے ہو رہے ہوں یا مذہبی علماء عذاب قبر سے ڈرا رہے ہوں۔ اہلِ اقتدار بھی قائل کرنے کی کوششوں میں ’’غرق‘‘ ہیں کہ ’’پابندی وابندی کچھ نہیں بلکہ مقصد تو شرارتی بچوں‘‘ کو پیکا کی ’’پیار بھری تھپکی‘‘ دیکر یہ سمجھانا ہے کہ آگ سے نہیں کھیلتے‘‘
’’حکومت کا تو کیا گلہ اک عارضی شے ہے‘‘ لیکن حیرت تو ان جری جوانوں پر ہوتی ہے جو آزادی اظہار کے نام پر ’’کمفرٹ زون‘‘ سے باہر آنے پر بالکل بھی آمادہ نہیں۔ ایسے جہاندیدہ قلم دوست بھی اس محاذ آرائی میں شامل ہو گئے ہیں جن کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ برٹرینڈ رسل کے حوالے دیئے جا رہے ہیں کہ زباں پر پہروں نے کس طرح مسلمان اور عیسائی ’’بادشاہتوں‘‘کو کھوکھلا کر دیا ورنہ تو مطلق العنانیت کا بازار مزید کافی عرصہ گرم رہ سکتا تھا۔
رسل آج زندہ ہوتے تو ان سے پوچھا جا سکتا تھا کہ مسلمان اور عیسائی بادشاہتوں کے دور میں حریت فکر و عمل کے جتنے گمنام یا نمایاں ’’سپاہی‘‘ پیدا ہوئے ہیں کیا آج ان سے نصف بھی جنم لے سکے ہیں آج جنہیں ہم آزاد معاشرے کہتے ہیں انہوں نے کتنے ابن رشد، ابن سینا، سقراط، روسو، والٹیر، دلیر خاتون ہائے پاشیا پیدا کئے، آج کتنے گلیلیو جنم لے چکے ہیں جو موت کو کان کے قریب محسوس کرکے بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔ کتنے جیارڈینوبرونو آئے جو پھولوں کی مارکیٹ کے قریب زندہ جلا دیئے گئے یا کتنے ابن سینا موجود ہیں جو برسوں تنگی حالات اور ریاست سے چھپن چھپائی کی زندگی گزار کر قابل تقلید انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ؟
یہ سپین کی ’’مسلم بادشاہت‘‘ ہی تھی جسے رابرٹ بریفو نے اپنی کتاب (The Making of Mankind ) میں یورپ کے تعفن زدہ معاشرے کیلئے کھلی ہوا کا جْھونکا قرار دیا تھا۔ رسل بڑے دانشور ہیں لیکن ان کی تحقیق اس وقت پرانی لگتی ہے جب جیمز ہنام کی کتاب (The God's Philosophers ) یا ’’سیب فلک‘‘ کی ریسرچ (The Light ages) پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے ’’ڈارک ایجز‘‘ کہلائے جانے والے یورپی دور میں جو علمی ترقی ہوئی اس سے لگتا ہے سیاہ دور تو کبھی اس انداز میں موجود ہی نہیں تھا۔ جس طرح بتایا جاتا رہا ہے۔
اسی طرح عباسی دور میں مسلمانوں کی تنظیم ’’اخوان الصفا‘‘ کا جائزہ لیں تو یہ جان کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی کہ کس طرح اس کے ارکان نے علم کی شمع کے فروغ کیلئے اپنے کتنے ہی گریبان چاک کر ڈالے اور ان کے کارناموں کی آج ساری دنیا معترف ہے۔
چلیں ان قدرے پرانی باتوں سے آگے بڑھتے ہیں۔ صاحب علم و دانش بتائیں کہ کیا جب فرانس انقلاب کے مراحل سے گزر رہا تھا تو والٹیر اور روسو شاہ لوئس سے حق اظہار رائے مانگ رہے تھے یا بڑی مہارت سے اپنا کام کر رہے تھے۔ اسی طرح میکسم گورکی نے جب ناول’’ماں‘‘ لکھا تو کیا روسی حکمران ’’زار‘‘ نے اظہار رائے کی خصوصی اجازت دیدی تھی؟ جواب میں یقیناً سننے کو مل سکتا ہے کہ وہ تو مطلق العنان بادشاہتیں تھیں۔ ہم تو آئین والی جمہوری ریاست میں سانس لے رہے ہیں۔ تو اس پر پھر پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ترقی یافتہ ملکوں خصوصاً مغرب میں فوکو یاما کی کتاب ( History of End) کو حقیقت مان کر حقوق کی جدوجہد اب وقت کا ضیاع سمجھی جاتی ہے؟ یا اب بھی احتجاج کا کوئی شعلہ بھڑک اٹھتا ہے اور نیو لبرل ازم سے تنگ لوگ اپنے آپ کو سسٹم کا قیدی محسوس کرتے ہیں۔ یقیناً ’’ملٹی نیشنل کلچر‘‘ کی گھٹن اور ڈیپ سٹیٹ کے تصورات یورپی لوگوں اور امریکیوں کو بھی گھیرے رکھتے ہیں۔ ثابت ہوا حقوق کی جدوجہد ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے اور اسی کوشش کے نتیجے میں ریاستیں آگے بڑھتی ہیں۔
اپنے ملک ہی کی مثال لے لیں۔ انتہائی بہترین ادیبوں اور لائق تحسین صحافیوں کو اکلوتے سرکاری چینل سے اس طرح دور رکھا گیا جیسے وہ ادیب یا صحافی نہ ہوں بلکہ ’’رابن ہڈ‘‘ یا ’’سلطانہ ڈاکو‘‘ ہوں اور موقع ملتے ہی گردنوں پر خنجر رکھ کر حقوق حاصل کرنے میں ماہر ہوں۔ کیا انہوں نے زبردست دباؤ کے ماحول میں اپنی بات نہیں کہی اور کیا جواب میں لوگوں نے انہیں سر ماتھے پر نہیں بٹھایا۔ کیا وہ دنیا سے کنارا کر جانے کے باوجود آج کے اکثر زندہ ’’بزرجمہروں‘‘ سے زیادہ نمایاں نہیں ہیں؟ کیا آج ہم ایک بھی ایسا ابن رشد، ابن سینا، ارسطو، جیارڈینو برونو اور سقراط پیدا نہیں کر سکتے جو اپنے مضبوط خیالات کا ’’آہن گر ‘‘بن کر سب زنجیریں پگھلا دے۔کیا ہم گہری بات کرنے کے فن کو بھلا بیٹھے ہیں اور اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ جسے ’’عدو‘‘ سمجھتے ہیں اس سے ہی بات کرنے کیلئے زبان مانگ رہے ہیں؟
ماضی بعید سے لیکر آج تک کسی ریاست اور ملک نے آزادی رائے کے من چاہے ’’پیکج‘‘ کی منظوری نہیں دی اور اگر تھوڑی بہت دی ہے تو وہ بھی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی۔ ریاستیں تو اظہار رائے کو دبانے میں ہمیشہ ہی مہارت رکھتی ہیں۔ کارل مارکس نے اسی بات کا فائدہ اٹھا کر ہی تو کہا تھا کہ ریاست مغرب کی ہو یا مشرق کی، استحصال کی ہی ایک شکل ہے۔
اگر ہم حق پر نہیں‘ ہمارے لب فضاؤں میں سچ کی شیرینی گھولنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہم اینٹ پھینکیں گے تو ہمارے شیشہ گھروں میں پتھروں کی برسات ہو جائے گی۔ ہم ابن سینا کی طرح در بدر اور روسو کی جیسی پرخطر زندگی گزارنے کیلئے بھی تیار نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ’’کمفرٹ زون‘‘ والی چکی کی مشقت بھی کرتے رہیں اور نازک اندام مشق سخن بھی جاری رہے تو ہمیں ضرور اظہار رائے کی آزادی کی ’’بھیک‘‘ مانگنی چاہئے‘ احتجاج اور مظاہرے کرنے چاہئیں ورنہ مقتل میں جانے والی شان کے ساتھ آگے بڑھ کر جام کو تھامنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے اور بتا دینا چاہئے کہ ہماری طبع رکتی ہے تو اور رواں ہو جاتی ہیں۔
ضروری نہیں ہم برٹرینڈ رسل کی ساری باتیں من و عن تسلیم کر لیں بلکہ آج کے جدید دور میں رسل کو بھی بہت سی باتیں سکھائی اور بتائی جا سکتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر راہ میں کانٹے بکھرے ہیں لیکن جب کانٹوں والی یہ راہیں اٹ جایا کرتی ہیں تو ان سے پھوٹنے والے سو (100) راستوں کو نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آج جو ریاستیں اور مملکتیں ترقی کی شاہراہوں پر سینہ تان کر کھڑی ہیں وہ کبھی ہماری موجودہ پوزیشن سے بھی گئی گزری تھیں۔ لیکن وہاں کے لکھاریوں اور دانشوروں نے ’’کمفرٹ زون‘‘ مانگنے کی بجائے ڈٹ کر حق بات کہی۔ فضاؤں پر کسی کا زور نہیں ہوتا اس لئے انہوں نے ہواؤں میں سچائی گھول دی اور جو اظہار رائے کیلئے کمفرٹ زون ملنے کا انتظار کرتے رہ گئے وہ ایسے ’’مچھیرے بن گئے جو ندی کا پانی اترنے کا انتظار کرتے کرتے انسانی جسم و جاں سے نکل کر پتھر ہو گئے اور جب کبھی انہیں ’’کمفرٹ زون‘‘ میسر آ بھی گیا تو ان کے منوں وزنی پیروں نے ایک بھی قدم اٹھانے سے صاف انکار کر دیا اور وہ ہمیشہ کیلئے ساحلوں کے ہمسفر بن کر رہ گئے۔
معاشرے یا ریاستیں حق رائے دہی دبانے کی حسرتوں سے نہیں بلکہ دانشور کی خاموشی اور کم فہمی کے شور سے کھوکھلی ہوا کرتی ہیں اگر دانش ہمارے ہی شور سے دب گئی تو ہم آزادی کے مجاہد نہیں اہل اقتدار کے ساجھے دار بن جائیں گے دانش عقلمندانہ طرز زندگی کو فروغ دیتی ہے ہر عمل کا عقلی جواز مانگتی ہے اور شور وہ ہلچل ہے جو ہر تعمیری کام کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اگر ہم میں کانٹوں بھری راہوں پر چلنے کا حوصلہ نہیں تو پھر اپنے پھولوں سے رچے بسے نازک محلات میں دبک کر کمفرٹ زون ملنے کا انتظار کرنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ فیض کے یہ اشعار یقیناً ہمارے لئے نہیں:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے