ماحولیاتی تبدیلیاں اور ڈوبتے تیرتے شہر 

پانی زندگی کی بنیاد ہے۔سندھ، نیل، دجلہ اور فرات کے زرخیز کناروں نے عظیم تہذیبوں کو پروان چڑھایا، بہتا پانی ازل سے تہذیبوں کا امین اور تمدن کو جِلا بخشنے کا ذریعہ رہا ہے۔ زمانہ بدلا ، کنارِ آب پڑاؤ ڈالنے کی بجائے انسان پانی کو بستیوں اور آبادیوں کے قریب لانے لگا اورصحراوں میں زندگی کی رمق پیدا کی۔ پانی چاہے سطح زمین پر بہتا ہو یا زمین کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہو زندگی کا سرچشمہ ہے۔بے قابو صنعتی ترقی، غیر ذمہ دارانہ زراعت اور دیگر کئی ضروریات کے تحت اس نعمت کا بے دریغ استعمال ہوا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے زمین کے سینے میں چھپی قیمتی بوندوں کے اس خزانے کو بے دردی سے خرچ کیا گیا۔ بلا سمجھے بوجھے مسلسل پانی نکالنے سے زمین کی گہرائی میں خلا پیدا ہوجاتا ہے جو بالآخر زمین کے دھنسنے اور پینے کے پانی کی شدید قلت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انسان نے اس دنیا کو خوبصورت اور کار آمد بنانے کے لیے بے تحاشا جتن کیے مگر اس کی تباہی میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انسانی بستیاں صرف اینٹ پتھر کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ انسانی رویوں ،سوچ اور ترجیحات کا عکس بھی ہوتی ہیں۔ 
جب فطرت کے اصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جائے تو آبادیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ آج کی دنیا شدید بارشوں ،سیلاب ،خشک سالی ،جنگلات میں آگ لگنے کے متواتر واقعات، طاقتور طوفانوں، سمندری طغیانی اور اسی نوعیت کی کچھ اور مثالوں کے ساتھ ماحولیاتی نظام کی بگڑتی صورتحال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ فضا میں کاربن کے بے تحاشا اخراج سے عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ 
خدشہ ہے کہ 2050ء تک دنیا کے کئی ساحلی شہر مکمل یا جزوی طور پر ڈوب سکتے ہیں۔ لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے سے ماحولیاتی مہاجرت کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ڈوبتے شہر کی اصطلاح ایسے علاقوں  یا شہر وں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو سمندر کی سطح میں اضافی یا زمین کے دھنسنے کے باعث جزوی یا مکمل طور پر ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے لیے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسیِ آب کے لیے کھدائی سے زمین کا اندورونی تہہ دار ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے ۔ بلند و بالا تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کا شدید دبا زمین کو مزید نیچے دباتا ہے جس سے زمین دھنسنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا کا شہر جکارتہ زمین میں تیزی سے دھنسنے والا سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے۔
 اس کے علاوہ اٹلی کا مشہور شہر وینس، تھائی لینڈ کا بنکاک، بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکہ اور حالیہ انتباہ کے مطابق پاکستان کے تین شہر کراچی، بدین اور ٹھٹھہ 2060ء تک سمندر برد ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 216.5 ملین آبادی دریائے سندھ کے میدانی علاقے میں آباد ہے۔ انڈس ڈیلٹا ماحولیاتی تنوع کا گہوارہ ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ،ماحولیاتی آلودگی ،سمندر کی سطح میں اضافہ اور ناقص منصوبہ بندی جیسے عوامل اس قیمتی اثاثے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ قدرتی آفات ،انسانی غلط فیصلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ما حولیاتی تبدیلیاں گزرے زمانوں میں کئی عظیم شہروں کی تباہی کا باعث بنی ہیں۔
 قدیم شہروں کے فنا ہونے کی یہ داستانیں پیغام دیتی ہیں کہ بقا کے لیے درکار توازن سے انحراف ہمیشہ باعثِ زوال ہوتا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب کے عظیم شہر موہنجو داڑو ، مصر کے ہیراکلیون ، روم اور بھارت کے قدیم ساحلی شہروں کی باقیات سے تباہی میں قدرتی آفات کے ساتھ انسانی غفلت کے سراغ بھی ملتے ہیں۔ ہم نے زمین کے وسائل کو بے دردی سے ضائع کیا۔دریاں کو زہر آلود کر دیا، سمندروں میں کچرا بھر دیا، اور زیرِ زمین پانی کو نچوڑ کر زمین کو بنجر کرکے تباہی کے دہانے تک لے آئے اور پھر جب غلطیوں کا ادراک ہوا تو شجرکاری مہمات، صاف توانائی کے منصوبے، پلاسٹک کے خلاف قوانین دنیا بھر میں اپنائے جانے لگے ۔اپنے ہی پیدا کردہ بحرانوں میں سب سے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ڈ وبتے شہروں کو بچانے اور تیرتے شہر بسانے کے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ تیرتے شہر ایک جدید تصور ہے یعنی ایسی بستیاں جو پانی پر موجود ہوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور خاص طور پر سمندری سطح میں اضافے کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ تیرتے شہر ماحولیاتی منصوبوں کا حصہ ہیں جو آج حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔
 جنوبی کوریا میں دنیا کے پہلے لچکدار اور پائیدار تیرتے ہوئے شہر Oceanix Busanکا ابتدائی اور آزمائشی نمونہ مستقبل میں پانی پر تیرتے ہوئے شہروں کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مالدیپ میں تیرتے ہوئے شہر کی تعمیر کے منصوبے کے تحت جون 2022ء کے آخر تک ابتدائی تعمیراتی یونٹس متعارف کرائے گئے، 2027ء تک اس شہر کی مکمل تعمیر اور آباد کاری متوقع ہے۔ دبئی ریفیس کا منصوبہ ماحول دوست ترقیاتی منصوبوں میں سے ایک  ہے۔ اس میں تیرتے رہائشی علاقے موسمی تغیرات سے ہم آہنگ اور ماحول موافق توانائی کے اصولوں پر مبنی ہوںگے۔
یہ تمام شہر اور مستقبل میں اس قسم کے دیگر منصوبے جدید انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائے جا ئیں گے تاکہ بڑھتے ہوئے موسمی مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تیرتے شہروں کا تصور بھی بالکل نیا نہیں ہے۔ تاریخی طور پر، بہت سی تہذیبوں نے دفاع، نقل و حمل، اور وسائل تک رسائی سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر پانی پر عارضی سکونت اختیار کی ہے۔ ڈوبتے شہروں کو محفوظ رکھنے کے لیے سمندری دیواروں اور فلڈ بیریئرز کی تعمیر جیسے اقدامات لندن، وینس، اور نیویارک جیسے شہروں میں کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کی بحالی اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے ذمین کی نمی کو واپس لانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ دنیا اس وقت شدید ماحولیاتی بحران کا سد ِباب کرنے کے لیے کوشاں ہے جس کے لیے بلاشبہ بے تحاشا سرمایہ درکار ہے ۔
 پاکستان موسمی تبدیلیوں کے بدترین اثرات جھیل رہا ہے محدود وسائل کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار اور قابلِ عمل منصوبوں کی اشد ضرورت ہے ۔ مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوتے پانی کے استعمال اور نظام کے لیے مؤثر انتظام، قابلِ تجدید توانائی جیسے سولر اور ونڈ انرجی کا فروغ، کاربن کے اخراج  کی روک تھام، شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی قوانین کو مزید سخت بنا کر جنگلات کی کٹائی پر پابندی جیسے اقداما ت ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ قدرت کی خاموش تنبیہ اب وقت کے ساتھ ساتھ ایک پرزور صدا میں بدل رہی ہے مگر اربابِ اختیار اب بھی اس مسئلے کو ثانوی حیثیت دے رہے ہیں۔بقول امجد اسلام امجد 
صاف پانی ہوا بارشیں چاندنی
یہ تو ہر ابن آدم کی جاگیر ہیں
یہ ہماری تمھاری کسی کی نہیں
مجھ کو تعلیم صحت اور امید کی
سات رنگوں بھری اک دھنک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے 

ای پیپر دی نیشن