زندگی میں انتظار لازم ہے 

پس آئینہ 
خالدہ نازش 

ایک وقت تھا جب ایک ہی ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور ایسے ایسے ڈرامہ سیریل دیکھنے کو ملتے تھے جو حقیقت کے بہت قریب ہوتے تھے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتے تھے ۔ اکثر طویل دورانیے کے ڈرامہ میں اچانک " انتظار فرمائیے" لکھا آ جاتا تھا مسحورکن مدھم سی موسیقی میں ایسی دھن چلنے لگتی تھی جس کی باز گشت آج بھی کانوں میں سنائی دیتی ہے ۔ اس انتظار کے دوران اٹھ کر واش روم جانا ہو یا کوئی اور ضروری کام کر لیتے تھے ۔ چونکہ یہ انتظار بتا کر کروایا جاتا تھا اس لیے اس قدر تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا جس قدر تکلیف دہ وہ انتظار ہوتا ہے جس کے ختم ہونے کا کوئی ٹائم فریم نہ ہو کچھ اس قسم کا انتظار میرے کچھ خیر خواہوں کو بھی کرنا پڑا ۔  مجھے نوائے وقت میں لکھتے ہوئے تقریباً سال ہو گیا ہے مگر اب کے بار میرے آنے والے کالم کا ناصرف میرے کچھ خیر خواہوں کو انتظار تھا بلکہ مجھے بھی انتظار تھا ۔ میں اپنے ان تمام خیر خواہوں کی شکر گزار ہوں جو انتظار کے بعد آخر فون کر کے انتظار کروانے کی وجہ پوچھنے پر مجبور ہو گئیاور اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ کہیں میں نے لکھنا چھوڑ تو نہیں دیا ۔ ان کے ساتھ ساتھ میں پیکا ایکٹ کی بھی شکر گزار ہوں جس کی زد میں آ کر میری دو تحریریں شائع نہ ہو سکیں مگر اس ایکٹ کی وجہ سے مجھے کچھ خیر خواہوں کے اخلاص ، ان کی ادب میں دلچسپی اور میرے کالم کے آنے کا انہیں انتظار رہتا ہے کو جاننے کا موقع ملا ۔ ایسے دوست حوصلہ بڑھا دیتے ہیں ۔ 
کبھی کبھی یہ جاننے کے لیے کہ کون ہمارے قریب ہے بہت دور جانا پڑتا ہے اور کبھی کبھی زندگی خود ہی ایسے مواقع فراہم کر دیتی ہے کہ یہ جاننے کے لیے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا وگرنہ تو عمر بھر ساتھ چلنے والے بھی ہمارے دکھ ، تکلیفوں اور غموں سے اجنبی نکلتے ہیں ۔ خیر ، پیکا ایکٹ ہو یا چھبیسویں آئینی ترمیم ہم پاکستانیوں کا نصیب ہے کہ ہم ہر وقت اس قسم کی امید چھیننے والی کسی نہ کسی آفت کی زد میں رہتے ہیں ۔ آج کل ہم کن کن آفتوں کی زد میں ہیں اگر ان کا ذکر کرنے لگی تو بات دور نکل جائے گی اور میں اپنی اس تحریر کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہوں گی لہذا موضوع کو بدل دیتے ہیں تاکہ دوستوں کو بھی انتظار جیسی آفت سے بچایا جا سکے ۔ انتظار بھی کسی آفت سے کم نہیں ہوتا ۔ ہم دنیا میں انتظار کو بھی ساتھ لے کر آتے ہیں اور پھر عمر بھر ہم پر ایک نہ ختم ہونے والے انتظار کا قبضہ رہتا ہے جو زندگی کی کہانی کو کبھی مکمل ہونے ہی نہیں دیتا اور لگتا ہے جیسے پتہ ہی نہیں چلا اور ہم بچپن ، جوانی گزار کر بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان امید پر زندہ ہے مگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان انتظار پر بھی زندہ ہے ۔ ہم سب کو زندگی میں بے قراری اور بے صبری والے انتظار سے بھی ضرور واسطہ پڑتا ہے جب انتظار بھی پرتاثیر ہو جاتا ہے ۔ جس طرح ہر رشتے کی اپنی اہمیت اور تاثیر ہوتی ہے اسی طرح ایسے انتظار کے اندر بھی بے قراری اور کرب کی تاثیر اور لذت ہوتی ہے ۔ مجھے سکول کے زمانے کا جب میں آٹھویں جماعت میں تھی ایسی ہی بیصبری اور بے قراری والے انتظار کا ایک واقعہ یاد آ گیا ۔ وہ زندگی کے ابتدائی سال تھے اور ابتدائی سالوں میں ہم زندگی کی بہت سی حقیقتوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس بات کی بھی خبر نہیں ہوتی کہ زندگی تو انسان کو ایسے ایسے مراحل ، دکھ ، تکلیف ، پریشانیوں اور اپنوں کے بچھڑ جانے کے غم سے گزارتی ہے جہاں سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ طالب علمی کے زمانے میں ویسے تو امتحان کے بعد رزلٹ کا بیصبری سے انتظار ہوتا ہے مگر یہ واقعہ ایک چھوٹی سی خواہش سے جڑا ہوا ہے ۔ میرے سکول میں سٹاف روم کے ساتھ والے روم کے دروازے پر ایک بہت موٹا تالہ لگا رہتا تھا جس میں طلبہ کے لئے کھیلوں کا سامان تھا جس پر ہم سب طلبہ کا کہنا تھا کہ ہیڈ مسٹریس نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ مہینے میں صرف ایک بار وہ تالہ کھلتا تھا اور تالے کی چابی کلرک کے پاس ہوتی تھی ۔ کمرہ صرف میٹرک کی طلبہ کے لئے کھلتا تھا اور انہیں بھی کھیلنے کی دو تین چیزیں ہی دی جاتی تھیں ۔ پرائمری اور مڈل حصّے کو صرف کمرے کے اندر جھانک کر دیکھنے کی اجازت تھی ۔ ایک دن ہیڈ مسٹریس کو رحم آ گیا اور کلرک سے کہا کہ اگلے ماہ مڈل کلاس کو بھی کھیلنے کے لیے کچھ سامان دیا جائے گا یہ خبر سن کر ہم مڈل کلاس کی لڑکیاں بیصبری کے ساتھ اگلے ماہ کے انتظار میں پڑھنا لکھنا بھول گئی تھیں ۔ کہتے ہیں انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتی ہیں ہمیں بھی لگ رہا تھا جیسے اس ماہ کو گزارتے ہوئے سال لگ گیا ہے مگر جس دن تالہ کھلنا تھا کلرک نے تالے کی چابی کہیں کھو دی تھی اور سکول کا سارا وقت اسے چابی ڈھونڈنے میں لگ گیا تھا اور چھٹی کا وقت ہو گیا تھا ۔ کلرک نے ہمارے ایک ماہ کے انتظار اور ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا جس کی کلرک صاحب کو ذرا بھی پرواہ نہیں تھی ۔ بیصبری والے انتظار کا وہ وقت آج بھی لاشعور میں اٹکا ہوا ہے اور آج بھی یاد کرنے سے جسم بیصبری کی اس کیفیت کو اسی طرح محسوس کرتا ہے ۔ بچپن میں کسی مجبوری یا مالی حالات کی وجہ سے کوئی ایک گڑیا یا کوئی کھلونا نہ خرید سکنا اور اس خواہش کا حسرت بن کر لاشعور میں بیٹھ جانا عمر بھر نہیں بھول سکتا پھر چاہے انسان زندگی میں کتنے ہی اونچے مقام پر پہنچ جائے ، مالی حالات کتنے ہی اچھے ہو جائیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بے دریغ بہا لے مگر بچپن کی معصوم خواہش ، حسرت یا محرومی کو دل سے نہیں نکال سکتا ۔ کبھی کبھی انتظار اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ زندگی کے حسیں لمحوں کو بھی نگل لیتا ہے جب ہم اپنی خوشیوں کو مقاصد سے جوڑ لیتے ہیں ۔ مقاصد کے پورا ہونے تک کوئی خوشی ہمیں خوشی لگتی ہی نہیں بلکہ ہم اپنے اردگرد بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں ، ہماری نظر مقاصد پر ہوتی ہے اور اس دوران بہت سی خوشیوں کا دور گزر جاتا ہے ۔ عرب کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ بڑھاپے میں بیمار تھا اور زندگی سے مایوس ہو چکا تھا ایک سوار اندر آیا اور خوشخبری دی کہ ہم نے جہاں پناہ کے اقبال سے فلاں قلعہ فتح کر لیا ہے اور بہت سے دشمن گرفتار کر لیے ہیں وہاں کی تمام فوج اور رعایا مکمل طور پر اطاعت قبول کر چکی ہے ۔ بادشاہ نے ایک سرد آہ بھری اور کہا " یہ خوشخبری میرے لیے نہیں بلکہ اب ملک کے وارثوں کے لیے ہے میری تمام عمر اسی امید اور انتظار میں گزر گئی کہ جو کچھ میرے دل میں ہے پورا ہو جائے یعنی میں جس سلطنت کو فتح کرنا چاہتا ہوں فتح کر سکوں بندھی امید تو پوری ہو گئی مگر اب کیا فائدہ جبکہ گزری عمر کے واپس آنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ آج مجھ پر میرے مقصد کا دشمن بڑھاپا حملہ آور ہے ?" انتظار امید اور حوصلے کی پشت پناہی کرتا ہے ۔ ایک تحقیق کی گئی اور اس میں کچھ ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا جن کی زندگی میں کوئی مقصد اور انتظار تھا اور ایسے لوگوں کو بھی جن کی زندگی میں کوئی بڑا مقصد اور انتظار نہیں تھا ۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں کو مقصد پورا ہونے کا انتظار تھا وہ زیادہ فوکسڈ ، پرعزم ، ثابت قدمی اور جدوجہد کا مجسمہ تھے اور نہ صرف انتظار نے ان میں یہ سب خوبیاں پیدا کر دی تھیں بلکہ انتظار نجات دہندہ کا کام بھی کر رہا تھا بالکل ایسے جیسے ڈوبنے والے کسی انسان کو انتظار ہو کہ کوئی انسان ساحل سے آ کر اسے بچانے والا ہے اس لیے اس کی نظر ہی ساحل پر لگی ہو اگرچہ اس کے لیے نجات دہندہ کی رفتار تیز کرنا ممکن نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ نجات دہندہ کو دیکھنے کے بعد اس کے اندر زندگی کی امید پیدا ہو جاتی ہے اور نجات دہندہ ڈٹے رہنے کا حوصلہ پیدا کر دیتا ہے ۔ تحقیق کے مطابق جن کی زندگی میں کوئی انتظار نہیں تھا ان کے کسی بھی کام میں تسلسل نہیں تھا ۔ ان کے سامنے زندگی کی کوئی واضح پکچر نہیں تھی اور تعداد میں یہ مذکورہ بالا لوگوں کی نسبت زیادہ تھے ۔ لہذا تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پہنچی کہ مقصد اور انتظار زندگی کی راہ متعین کر دیتا ہے اس لیے زندگی میں انتظار لازم ہے ۔ ہم پاکستانی بھی من حیث القوم 77 سالوں سے ایک امید اور انتظار پر جی رہے ہیں کہ کبھی اس ملک کے حالات بھی ایسے ہوں گے جب ہمارے لیے جینا آسان ہو جائے گا کیونکہ ایک عام انسان کا اس ملک میں جینا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ ہمارے آباؤ اجداد اسی انتظار میں دنیا سے چلے گئے اور شاید ہم بھی یہ دیکھے بغیر چلے جائیں مگر ابھی امید اور انتظار پر زندہ ہیں ۔ 

ای پیپر دی نیشن