اتحادی حکومت کی ایک سال کی کامرانیاں اور  اپوزیشن کی انتشاری سیاست

جمہوریت کی عملداری کے تسلسل کیلئے گزشتہ سال آٹھ فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہو گیا۔ ان انتخابات کی بنیاد پر ہی موجودہ حکمران اتحادی جماعتوں کو اقتدار سنبھالنے کا مینڈیٹ حاصل ہوا تھا جسے پاکستان تحریک انصاف‘ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ اور جماعت اسلامی نے فارم 47 کے حوالے سے متنازعہ بنا کر ملک میں سیاسی عدم استحکام کے راستے نکالنے کی کوشش کی اور بالخصوص ریاستی اداروں بشمول افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان برپا کیا اور اس مقصد کیلئے فیک نیوز پھیلا کر ملک اور سسٹم کی بھد اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آٹھ فروری 2024ء کے انتخابی مینڈیٹ کیخلاف تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی کے ایجنڈے اور ہدایات کے مطابق حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا جس کا رخ حکومت سے زیادہ الیکشن کمیشن اور افواج پاکستان کی جانب رہا جن کیخلاف بے بنیاد‘ زہریلا پراپیگنڈا کرکے ملک سے باہر بھی وطن عزیز کا تشخص خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور ملک کے اندر انتشار اور افراتفری کی فضا گرماتے ہوئے 26 نومبر 2024ء والے واقعات کی نوبت لائی گئی اور بالخصوص سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور ریاستی اداروں کیخلاف زہریلے پراپیگنڈہ کا طومار باندھا گیا۔ اسکے سدباب کیلئے حکومت پیکا ایکٹ میں ترمیم لا کر فیک نیوز کی سخت سزائیں لاگو کرنے پر مجبور ہوئی مگر یہی اقدام آزادی اظہار رائے پر پابندی کے حوالے سے حکومت کے گلے پڑا ہوا ہے اور اسے اپنے اقتدار کے ایک سال کے دوران ملکی‘ قومی اور عالمی سطح پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کو اپنے حق میں کیش کرانا بھی مشکل ہو رہا ہے جبکہ اس اتحادی حکومت کو حاصل شدہ مینڈیٹ کا اپوزیشن کے تیزی سے پھیلائے جانے والے منفی پراپیگنڈے کے مقابل دفاع کرنا بھی اتحادی قیادتوں کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے اب تک ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل کر استحکام کے راستے پر گامزن ہوئی ہے تو اس کا کریڈٹ حکومتی اور عسکری دونوں قیادتوں کو جاتا ہے اور وزیراعظم شہبازشریف نے اس کا اعتراف کرنے میں بھی کبھی کسر نفسی سے کام نہیں لیا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے عبوری نگران دور حکومت میں ہی ملک کی اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کی خاطر حکومت کو ملک کی ترقی و خوشحالی اور بالخصوص دہشت گردی کے تدارک کیلئے افواج پاکستان کی جانب سے ہر قسم کی معاونت فراہم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا تھا۔ اس مقصد کیلئے قومی اور صوبائی سطح پر ایپکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن میں ریاستی اور حکومتی‘ انتظامی مشینری کی تمام اہم شخصیات شامل ہیں اور دہشت گردی کے تدارک اور امن و امان کے قیام کے علاوہ قومی معیشت کے استحکام و فروغ اور صنعت و زراعت کی ترقی سے متعلق جو بھی اہم فیصلے ہوئے ہیں‘ وہ ان ایپکس کمیٹیوں کے پلیٹ فارم پر ہی ہوئے ہیں چنانچہ اپوزیشن کی ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی کے اقتدار کے پہلے ایک سال کے ساتھ موجودہ اتحادی حکومت کے پہلے سال کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو قومی معیشت کے استحکام کیلئے جو تعمیری مثبت اقدامات موجودہ حکومت کے اقتدار کے پہلے سال اٹھائے گئے ہیں جس کے ثمرات بھی عوام کو حاصل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے پورے عرصہ کے دوران بھی اقتصادی اور سیاسی استحکام کی جانب ایسا کوئی قدم اٹھتا ہوا نظر نہیں آیا تھا۔ اسکے برعکس پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں ملک کو دوبارہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی جانب دھکیل دیا جس کیلئے اس عالمی ساہوکار ادارے کی ہر شرط سر جھکا کر من و عن قبول کرلی گئی نتیجتاً عوام مہنگائی در مہنگائی کے شکنجے میں جکڑے جانے لگے۔ پھر پی ٹی آئی کے اسی عہد اقتدار میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتے دیکھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج کے معاہدیکے لیئے اسکی قبول کی گئی شرائط پر عملدرآمد سے ہاتھ روک لیا گیا جس پر خفا ہو کر آئی ایم ایف نے معاہدہ معطل کر دیا جس کی بحالی کیلئے آنے والے اتحادی حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ناک رگڑنا پڑی اور عوام پر مہنگائی کے مزید سونامی اٹھانے کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ نتیجتاً ان پر عوام کا اعتماد کمزور ہوا جس کا نقصان انہیں فروری 2024ء کے انتخابات میں اقتدار کے منقسم مینڈیٹ کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ یہ بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے بڑا اور کڑا امتحان تھا جو سنگل مجارٹی پارٹی والی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اسکے باوجود منقسم مینڈیٹ رکھنے والی جماعتوں نے باہم متحد ہو کر حصول اقتدار میں کامیابی حاصل کی اور عسکری قیادت کے تعاون سے آج اپنے اقتدار کے ایک سال کے دوران ہی اس اتحادی حکومت نے قومی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ 
چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز اسی تناظر میں اپنے بیان میں باور کرایا ہے کہ انہیں پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل پر کامل یقین ہے۔ ایک سال پہلے کے چھائے ہوئے مایوسی کے بادل چھٹ چکے ہیں اور آج معیشت کے تمام اشاریے مثبت ہیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے استفسار کیا کہ مایوسی پھیلانے اور ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والے لوگ آج کہاں ہیں۔ انکے بقول اگلے سال ملک کی اقتصادی صورتحال مزید بہتر ہو جائیگی۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بھی اسی تناظر میں اتحادی حکومت کے ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اسے معاشی بحالی کا بے مثال سال قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے ناممکن کو ممکن بنایا ہے اور مشکل حالات‘ سیاسی انتشار اور رکاوٹوں کے باوجود ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو اس ایک سال کے دوران ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے بقول عزم استحکام‘ ایس آئی ایف سی اور اڑان پاکستان جیسے منصوبے پاکستان کو خطے کا تیز ترین ترقی یافتہ ملک بنانے میں اہم کردار ادا کرینگے۔ ان کا یہ کہنا بھی درست نظر آتا ہے کہ ’’شہباز سپیڈ‘‘ کا ایک سال بے مثال ہے اور بہتر معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے عام آدمی کے حالات زندگی بہتر ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں مہنگائی شرح سنگل ڈیجٹ پر آنا بھی بڑی کامیابی ہے۔ 
 بے شک موجودہ حکومت کے پہلے سال کی کامرانیوں میں اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بھی حکومت کے شامل حال ہے جو ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے کا باعث بنے ہیں اور آج فاریکس ذخائر 9 عشاریہ 2‘ ارب ڈالر سے بڑھ کر 14عشاریہ 6 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جبکہ اس ایک سال کے دوران برآمدات 27 عشاریہ 72 ارب ڈالر سے بڑھ کر 30 عشاریہ 64 ارب ڈالر تک آگئی ہیں۔ اسی طرح سال 2024ء حکومت کی سفارتی کامیابیوں کا سال ٹھہرا ہے جس کے دوران پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جبکہ سرکاری و نجی سطح پر لاکھوں ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کئے گئے اور چین‘ سعودی عرب‘ قطر‘ ترکیہ‘ آذربائیجان اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی۔ 2024ء میں حکومت کو بڑی کامیابی پانچ نجی تھرمل پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی معطلی کی صورت میں ملی جس سے بجلی کے نرخوں میں دس سے 12 روپے فی یونٹ کمی کا امکان پیدا ہوا ہے جبکہ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بھی بہتری آئی ہے۔ 
اگر انہی خطوط پر ملکی معیشت کو استوار کیا جاتا رہا اور حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجہ میں ملک سیاسی استحکام کی جانب بھی گامزن ہو گیا تو قوم کی خوشحالی کی بنیاد پر اس کا مستقبل بھی روشن ہو جائیگا۔ اگر ملک کی ترقی اور سسٹم کا استحکام ہماری قومی سیاست کا مطمع نظر ہے تو اپوزیشن کو بلیم گیم کے کلچر سے باہر نکل کر ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپوزیشن کیلئے سیاست اور اقتدار کے راستے تبھی نکلیں گے جب وہ سسٹم کے ساتھ اپنا ربط بڑھائے اور مضبوط بنائے گی۔ اگر اپوزیشن فارم 47 کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا مینڈیٹ قبول نہ کرنے پر مْصر رہے گی تو پھر حکمران جماعتوں کی قیادتیں بھی پی ٹی آئی کو حاصل ہونے والے 2018ء کے مینڈیٹ کو اسی بنیاد پر چیلنج کرتی نظر آئیں گی۔ اس طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اقتدار کی بوٹی ماضی کی طرح سیاسی قیادتوں کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن