اگرچہ ڈی چوک کا قصہ کب کا ختم ہو چکا ، تاہم اس سے جُڑی لاشوں کی جو کہانی پی ٹی آئی لیڈر شپ کی جانب سے بیان کی جا رہی ہے، وہ ان دنوں زبانِ زد عام ہے۔ یقین تو نہیں آتا کہ لاشوں کی اس کہانی میں کوئی صداقت ہے لیکن پھر بھی اس پر بات کر لیتے ہیں۔ بات کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ کوشش کرتے ہیں، منطقی دلائل کے ساتھ لاشوں کی اصل حقیقت واضح کر سکیں تاکہ اس تناظر میں پھیلائی جانے والی ’’فیک نیوز‘‘ کا خاتمہ ہو اور لوگوں کو اصل حقیقت معلوم ہو سکے۔
میں ایک وکیل ہوں۔ بخوبی جانتا ہوں کوئی قتل ہو جائے تو وہ قتل یا تو قتل عمد ہو گا یا قتل خطا۔ پولیس وقوعہ سرزد ہونے کی صورت میں مدعی کے بیان اور پیش کردہ حقائق کی روشنی میں جب طے کر لیتی ہے کہ وقوعہ قتل عمد ہے یعنی قتل کا ارتکاب ارادتاً اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کسی کی ہلاکت اتفاقیہ ہوئی ہو ، قتل میں منصوبہ بندی یا ارادہ شامل نہ ہو تو قانون کے نزدیک یہ قتل، قتل خطا کہلائے گا۔ جس کے لیے آئین میں 304کا اطلاق کیا گیا ہے۔ دفعہ 304ایک قابل ضمانت جرم ہے جبکہ دفعہ 302کو آئین نے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا ہے۔ آئین میں اس دفعہ کی سخت ترین سزا مقرر ہے جو سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے۔
زیر دفعہ 302کے مقدمہ کے اندراج کے لیے یہ بات اہم ہے کہ لاش ’’گمشدہ‘‘ نہ ہو یعنی لاش کی عدم دستیابی ہو گی تو آئین کے مطابق ایسے کسی ’’وقوعہ‘‘ کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ رولز کے تحت لاش کا پوسٹ مارٹم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر عدالت بھی کسی لاش کی عدم دستیابی پر مقدمے کے اندراج کا حکم نہیں دے سکتی۔
اب ہم آتے ہیں ڈی چوک کی جانب، جہاں 26نومبر کو علی امین گنڈا پور اور اہلیہ بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی اپنی قیادت میں ایک احتجاجی جلوس لے کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت دیگر دو مطالبات کے ساتھ ڈی چوک پہنچے۔ ڈی چوک اسلام آباد کا حساس ترین علاقہ ہے جس کے مضافات میں بہت سی اہم سرکاری عمارتیں ہیں۔ سپریم کورٹ، سینیٹ اور قومی اسمبلی بھی یہاں واقع ہیں۔ ڈی چوک ’’سیز‘‘ ہو جائے تو پورا اسلام آباد عضوِ معطل بن جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کا ڈی چوک پر احتجاج اور دھرنا روکنے کے لیے رینجرز، پنجاب اور اسلام آباد پولیس پہلے سے ہی یہاں موجود تھی۔ آرٹیکل 245کے تحت فوج بھی بلا لی گئی تھی جو حساس مقامات پر متعین اور مامور تھی۔ چیف منسٹر خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا ماضی گواہ ہے جب بھی احتجاج کے لیے آئے مظاہرین کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود کہیں غائب ہو گئے۔ اس بار بھی یہی امیدتھی کہ جب اسلام آباد پہنچیں گے تو حسب سابق مظاہرین کو چھوڑ کر کہیں ’’غائب‘‘ ہو جائیں گے تاہم اس بار بشریٰ بی بی ، گنڈا پور کو کھینچ کھانچ کر کسی بھی طریقے سے اسلام آباد کے ڈی چوک تک لے آئیں۔ اس دوران انتظامیہ نے اسلام آباد کی بجلی ’’آف‘‘ کر دی۔ جبکہ پولیس کی جانب سے ’’ٹیئر گیس‘‘ کی شدید شیلنگ کے بعد مظاہرین اپنی گاڑیاں چھوڑ کر ڈی چوک سے بھاگنا شروع ہو گئے۔ ٹی وی کیمروں نے راہ ِ فرار کے یہ سب مناظر اپنے چینلز کی چھوٹی سکرین پر دکھائے۔ اس دوران رینجرز اور پولیس کی جانب سے نہ کوئی گولی چلی کیمروں نے کسی لاش کو گرتے نہ دیکھا۔
پھر یہ سینکڑوں لاشوں کی کہانی کہاں سے آ گئی؟ رینجرز یا پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائی ہوتیں تو بڑا نقصان ہوتا اور کیمروں کی آنکھ سے نظر بھی آتا۔ سمجھ نہیں آئی سابق گورنر سردار لطیف کھوسہ نے جو اب پی ٹی آئی میں شامل ہیں ، ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں کیسے 272کارکنوں کی رینجرز اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا دعو یٰ کر دیا۔ لیکن دعوے کے حق میں وہ کوئی شواہد یا ٹھوس دلیل نہیں دے سکے۔ لطیف کھوسہ کی جانب سے ہلاکتوں کا دعویٰ اس تناظر میں مجھے اور بھی مضحکہ خیز محسوس ہوا کہ کھوسہ صاحب خود فوجداری کے ایک بڑے وکیل ہیں ان کا شمار ملک کے منجھے ہوئے سینئر وکلاء میں ہوتا ہے۔ اُن کے منہ سے 272لاشوں کی بات سن کر واقعی مجھے حیرانی ہوئی۔ اس بات کا تعجب بھی کہ سینئر وکیل ہوتے ہوئے بھی شواہد کے بغیر وہ کیوں ایک ایسی بات کر رہے ہیں جسے ثابت کرنا اُن کے لیے مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔
26نومبر کو اگر ڈی چوک میں 272لاشیں گری ہوتیں اور سینکڑوں کارکن زخمی ہوئے ہوتے تو سوچنے کی بات ہے لاشوں یا زخمیوں کو کیا آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی کہیں کوئی سراغ نہیں ملا ، جنازہ ہوا نہ کوئی قبر موجود ہے۔ اسلام آباد یا پنڈی کے سرکاری یا کسی نجی ہسپتال میں بھی کسی ایک لاش یا زخمی کا کوئی اندراج نہیں پایا گیا۔ آخر اتنی لاشیں کہاں گئیں؟ مرنے والوں کی کوئی فیملی ہو گی، دوست، رشتے دار، محلے دار اور والدین ہوں گے۔ کسی ایک نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔ کسی ایک ٹی وی چینل نے بھی کہیں کوئی جنازہ اٹھتے نہیں دیکھا۔ 272لاشوں کا بہت بڑا ’’فِگر‘‘ ہے۔ مبینہ لاشوں کا تعلق کسی صوبے، شہر، تحصیل اور ضلع سے ہو گا ، کہیں سے بھی کوئی نہیں بولا۔ کیا لطیف کھوسہ کا یہ بیان ہیجان پیدا کرنے کا لیے تھا۔ شاید ڈی چوک میں پی ٹی آئی احتجاج کی ناکامی کے بعد انہیں ایسا بیان گھڑنا پڑا۔
حیرانی کی بات ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے صرف بارہ لاشوں کی سٹیٹمنٹ دی۔ بارہ لاشوں کا بیان دے کر انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے اہم رہنما کی 272لاشوں والی سٹیٹمنٹ کی نفی کر دی۔ کیا ایسا بے سروپا بیان ٹی وی پر دینا مذاق کی بات نہیں۔
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان سینکڑوں کارکنوں کی ہلاکت کی بات کر رہی ہیں۔ جبکہ لطیف کھوسہ 272کے اعداد و شمار دے رہے ہیں۔ انہی کی پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر بارہ لاشوں کی بات کرتے ہیں تاہم بارہ لاشوں کے حوالے سے بھی اُن کے پاس کوئی شواہد نہیں۔ گوہر خاں بھی ایک سینئر وکیل ہیں، بخوبی علم رکھتے ہیں ۔ پوسٹ مارٹم، کسی جنازے اور قبر کے بغیر اُن کے الزام کو کیسے سچ مانا جا سکتا ہے۔ پندرہ دن گزر جانے کے باوجود ابھی تک کسی پی ٹی آئی کارکن کی ڈیڈ باڈی سامنے نہیں آئی۔ کسی گھر سے کسی کارکن کا کوئی جنازہ نہیں اٹھا۔ کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ پھر لاشوں کی بات کو کیا ہم سچ مان لیں ؟ ایسے الزام کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ آپ خود سوچیں اور ملاحظہ کریں لطیف کھوسہ ہوں ، علیمہ یا گوہر خاں وہ جو کہہ رہے ہیںاگر جھوٹ ہے ’’فیک نیوز‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ تو کارروائی میں کیا قدغن ہے۔ ’’فیک نیوز‘‘ کے حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے ، کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔