پاکستان بھارت کشیدگی: گوترس کی ثالثی کی پیشکش

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی گزشتہ برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ دونوں جوہری طاقتیں تعلقات کے ایسے مقام پر پہنچ گئی ہیں جہاں ذرا سی چنگاری بڑا دھماکہ بن سکتی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ نازک صورتحال میں فوجی تصادم قابو سے باہر ہو سکتا ہے، جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ گوترس نے زور دیا کہ دونوں ممالک تحمل، بردباری اور حکمت سے کام لیں، اور جنگ کے دہانے سے پیچھے ہٹیں کیونکہ فوجی کارروائی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ہر اْس اقدام کی حمایت کرے گا جو امن اور کشیدگی میں کمی کا باعث بنے۔
بظاہر تو یہ بیان ایک معتدل اور مصالحتی انداز لیے ہوئے ہے، مگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ موقف ایک بنیادی حقیقت ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ کشیدگی بھارت کے یک طرفہ، غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز اقدامات کا نتیجہ ہے۔ مودی حکومت نہ صرف پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہی ہے بلکہ اس نے فوجی نقل و حرکت، سرحدی خلاف ورزیاں، سندھ طاس معاہدے کی  معطلی جیسے اقدامات سے خطے میں جنگی ماحول پیدا کر دیا ہے۔
بھارت کا جنگی جنون اور پاکستان پر مسلسل الزام تراشی نہ صرف عالمی قوانین کے منافی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ پاکستان کی جانب سے متعدد بار کہا گیا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے لیکن اگر جارحیت مسلط کی گئی تو بھرپور، مؤثر اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے ثالثی کی پیشکش اگرچہ نیک نیتی پر مبنی ہو سکتی ہے، لیکن درحقیقت اس کی ضرورت اس وقت نہیں ہے۔ اس وقت اصل ضرورت اقوام متحدہ کی اپنی ہی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی ہے، بالخصوص مسئلہ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات پر۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی جانب سے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر ہمیشہ سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے اور جنوبی سوڈان کو سوڈان سے الگ کرانے کے لیے ریفرنڈم کروائے، جہاں آبادی کا بڑا حصہ مسیحی تھا۔ مگر کشمیری اور فلسطینی مسلمان دہائیوں سے استصواب رائے کے لیے تڑپ رہے ہیں، ان پر ظلم، تشدد اور بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، مگر اقوام متحدہ کی قراردادیں صرف کاغذوں میں دفن ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی حقوق صرف غیر مسلموں کے لیے ہیں؟ کیا مسلمانوں کا خون اور ان کی آزادی کم اہم ہے؟
مودی حکومت نے پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کر کے نہ صرف جنگی فضا پیدا کی بلکہ اس کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، اٹاری بارڈر بند کرنے، اور دیگر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے جیسے جارحانہ اقدامات بھی کیے۔ پاکستان کی طرف سے پہلگام واقعے کی شدید مذمت کی گئی اور بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی پیشکش کی گئی، جسے بھارت نے رد کر دیا۔ بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ واقعہ خود بھارتی اداروں کی اندرونی لڑائیوں کا شاخسانہ ہے اور اس میں پاکستان کو ملوث کرنا  فالس فلیگ آپریشن کا حصہ ہے …  ایک ایسا ہتھکنڈہ جو بی جے پی حکومت ماضی میں بھی کئی بار استعمال کر چکی ہے۔
پاکستان کی طرف سے اب نہ صرف سفارتی سطح پر مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں بلکہ سیاسی و عسکری قیادت میں بھی مکمل ہم آہنگی نظر آ رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو فون کر کے بھارت کی اشتعال انگیزیوں سے آگاہ کیا، جبکہ ایرانی وزیر عباس عراقچی اور برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، لیکن اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستان نے عالمی برادری کو یہ بھی باور کروایا ہے کہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کے بغیر کوئی یک طرفہ الزام قابل قبول نہیں۔دوسری طرف بھارتی میڈیا اور حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری عوام کو جنگ کے لیے اکساتی نظر آتی ہے۔ بھارت نے اپنی سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت بڑھا دی ہے، آبادیوں کو خالی کروایا جا رہا ہے اور جنگی مشقیں کی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں اگر بھارت حملہ کرتا ہے تو پاکستان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا۔ پاکستان کی عسکری قیادت، خاص طور پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی خودمختاری پر کوئی آنچ آئی تو دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جنرل عاصم منیر نے فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے نہ صرف جوانوں کے ساتھ جنگی مشقوں میں حصہ لیا بلکہ ٹینک پر سوار ہو کر ان سے خطاب کیا اور پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا بھرپور جواب دے گا۔ نیویارک ٹائمز جیسا بین الاقوامی اخبار بھی اس امر کو تسلیم کر رہا ہے کہ پاکستانی فوجی قیادت نے موجودہ حالات میں ذمہ دارانہ اور دلیرانہ کردار ادا کیا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نے متفقہ قراردادیں منظور کر کے بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر پاکستان کے حصے کا پانی روکا گیا یا جارحیت کی گئی تو یہ جنگ کے مترادف ہو گا، اور جواب میں پاکستان اپنی تمام تر طاقت استعمال کرے گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ایک متحد قوم ہے جو اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کو تیار ہے۔
آج وقت آ چکا ہے کہ اقوام متحدہ ثالثی کی پیشکشوں کے بجائے اپنی قراردادوں کو عملی شکل دے۔ اگر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم ممکن ہو سکتے ہیں، تو کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ 
پاکستان امن کا داعی ضرور ہے، لیکن کمزور نہیں۔ ہم اپنی خودمختاری اور سلامتی کے دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کی قربانیوں، مصائب اور حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا مستقل اور منصفانہ حل نکالے۔ یہی امن کی طرف پہلا اور واحد مؤثر قدم ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن