سوشل میڈیا جب سے کمائی کا ذریعہ بنا ہے عجیب وغریب تخلیقات سامنے آ رہی ہیں۔ چونکہ سوشل میڈیا کی مارکیٹ ویوز کی بنیاد پر پرفارم کر رہی ہے اور سوشل میڈیا تشہیری مارکیٹ کا ایسا ماڈل ہے جسے ایپس کے مالکان نے ہائی جیک کر رکھا ہے، دنیا بھر کی تشہیری مہمات ان ایپس مالکان کے ہاتھ میں ہیں۔ آپ جو مرضی تخلیق کر لیں اس پر ویوز کی بنیاد پر وہ ایپس کمپنیاں اشتہار جاری کرتی ہیں اور وہ دنیا بھر سے پیسہ سمیٹ کر مقبولیت کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہیں یہ بہت عجیب وغریب گورکھ دھندا ہے جس پر دنیا کے بڑے بڑے ممالک بھی پریشان ہیں کہ کروڑوں لوگ ہر وقت ویوز حاصل کرنے کے چکروں میں کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں اور ہر کوئی کچھ انوکھا کرنے کے چکروں میں رہتا ہے تاکہ اس کی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ ویوز مل سکیں۔ اس وقت سوشل میڈیا دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری بن چکی ہے اور جن لوگوں کی یہ ایجاد ہے، انھوں نے دنیا کو اس شغل میں لگا دیا ہے اور خود وہ کچھ اور کام کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کو شغل میلے پر لگا دیا گیا ہے۔ بلا شبہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو بہت شعور بھی دیا ہے علم عام ہوا ہے لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں اس سے کچھ سیکھنے کی بجائے ہم نے اسے تفریح کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے جگتیں ،پھبتیاں ،رنگ بازیاں،ڈرامے، چٹکلے، گالیاں اور نہ جانے کیا کیا تخلیق کر رہے ہیں۔ ہم میں سنجیدگی کم اور انٹرٹینمنٹ کا عنصر غالب آچکا ہے۔ صیح کہتے ہیں معاشرے بھیڑوں کا ریوڑ ہوتے ہیں، انھیں جدھر چاہے ہانک کر لے جائیں۔ دراصل یہ لیڈر شپ ہوتی ہے جو معاشروں کو راہ دکھاتی ہے۔ آپ معاشروں کی ذہنی آبیاری کرکے ان سے تعمیر وترقی کے کام بھی لے سکتے ہیں اور انھیں شتر بے مہار چھوڑ کر ان سے جگتیں بھی تخلیق کروا سکتے ہیں۔ آپ لوگ اس کا اندازہ یہاں سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے دونوں اطراف جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن اس ماحول میں بھی سوشل میڈیا پر کیا کچھ تخلیق ہو رہا ہے۔ بس دونوں اطراف سے فرضی قصے کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں۔ اب تو روائیتی میڈیا بھی اسی رو میں بہہ چکا ہے سنجیدہ لوگ کسی بھی میڈیا پر چلنے والی خبر کو جب تک مختلف ذرائع سے کنفرم نہ کرلیں اعتبار نہیں کرتے تاہم ایسے دور میں جب کنفیوڑن زیادہ ہو اور حقیقت کا کھوج لگانا پڑے تو بااعتماد اداروں کی ضرورت اور اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ انتہائی بدقسمتی ہے کہ آج ہمیں انفارمیشن کا کوئی بھی بااعتماد ادارہ نہیں مل رہا جس کی خبر پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکے۔ آج بھی ہمیں بی بی سی پر ہی اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ جنگ کے دنوں میں پروپیگنڈہ وار اور تیز ہو جاتی ہے، قوموں کا مورال ہائی رکھنے اور گرانے میں پروپیگنڈہ وار کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو پاکستان اور بھارت میں میڈیا کے تخلیق کار نہ جانے کیا کیا تخلیق کر رہے ہیں لیکن شغل میلہ کرنے والوں نے تو انتہا کر دی ہے۔ ایسے ایسے شگوفے چھوڑے جا رہے ہیں۔ "جنگ لگ گئی انڈیا نال میں لڈیاں پاواں"۔ "مودی جنگ لانی اے تے پکی پکی لا تے لارا لانا چھڈ دے"۔ "فیصلہ مکانا ایں تے مکا جنگ لانی ایں تے لا"جیسی قوالیاں گانے ٹپے اور نہ جانے کیا کچھ گھڑا جا رہا ہے، انڈیا کو غلط فہمی تھی کہ پاکستان کے پاس جنگ لڑنے کے پیسے نہیں۔ ہم نے اپنے وزراء کی تنخواہوں میں 140 فیصد اضافہ کرکے انڈیا کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ ایک منچلے نے لکھا ہے ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں چلو جنگ ہی کر لیتے ہیں، کچھ کہہ رہے ہیں ہم نے ابھی جنگ کیلئے نیا سوٹ نہیں سلوایا ،کچھ کسان کہہ رہے ہیں کہ ہم نے گندم کاٹ لی ہے اب ہم فارغ ہیں جنگ کرنی ہے تو کر لو ورنہ پھر مونجیوں کی بوائی شروع ہو جانی ایں۔ویسے اگر کوئی روزانہ سوشل میڈیا پر تخلیق ہونے والے ادب پر تحقیق کرے تو روزانہ دو چار کتابوں کا مواد تو باآسانی دستیاب ہو سکتا ہے۔