زندگی کی بھاگ دوڑ سے ایک لمحہ نکال کر سوچیں تو سہی کہ بظاہر ترقی اور خوشحالی کے دلفریب موڑ مڑتی ہماری یہ دنیا دراصل کس قدر خوفناک جگہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ کہیں مصنوعی ذہانت اور کلوننگ جیسی ہولناک ایجادات ہیں تو کہیں دنیا کو کئی کئی بار تباہ کر دینے کی صلاحیت رکھنے والے ’’آدم خور‘‘ ہتھیار…ان ’’سیاست چارہ گراں سے دل کو بخشوا لائیں‘‘ تو لبرل اور کنٹرولڈ جمہوریت کے نام پر استعمال کئے جانے والے پریشان کن ہتھکنڈے راستہ روک کر آن کھڑے ہوتے ہیں۔دنیا کی موجودہ خوفناک صورتحال میں کسی چنگیز خان کا کوئی ہاتھ ہے نہ کسی ہلاکو کا کوئی قصور… بلکہ امیر تیمور کے کھوپڑیوں کے مینار بھی حیران کھڑے ہیں کہ یہ عالم رنگ و بو آج کدھر سجدہ روا ہو چکا ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ کسی شہنشاہ کے ہرکارے کی ’’باادب باملاحظہ ہو شیار‘‘ کی گرد بھی موجودہ ورلڈ آرڈر میں کوئی رخنہ ڈالنے کیلئے اپنا رول نہیں نبھا پا رہی بلکہ زیادہ تر ’’کرشمے‘‘ تو خود ’’آپ کی جمہوریت، آپ کے ذریعے اور آپ کیلئے‘‘ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ دنیا ابھی جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والے ہٹلر کی یادیں دل و دماغ سے نہیں مٹا سکی کہ مودی اور نیتن یاہو نے بڑے طمطراق سے نہ صرف اپنی پیدائش کا اعلان کر دیا ہے بلکہ اپنی ’’ہٹلر کاریوں ‘‘ سے دنیا کو زور زور سے جھنجھوڑنا بھی شروع کر رکھا ہے۔ اور انتہا یہ کہ دنیا کی سنجیدہ ترین جمہوریتیں بھی ان کی حمایت میں یوں کھڑی ہو جاتی ہیں جیسے یہ ان دونوں کا جمہوری حق ہو۔ لبرل جمہوریت کے یہ دونوں ’’سپوت‘‘ تو ہٹلر اور مسولینی سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ اور بغیر کسی ’’گوئیبل کے جھوٹ کی مدد کے، بربریت کے جھنڈے گاڑتے اور ساتھ ساتھ جمہوریت، جمہوریت پکارتے ظلم کے ہتھیاروں کے ساتھ بلا روک ٹوک بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور یہ خدشہ لاحق ہو رہا ہے کہ ان کے یہ ’’کارنامے‘‘ جمہوریت کی تعریف ہی نہ بدل ڈالیں اور اسے کچھ اس طرح بنا دیں کہ ’’ہماری سفاکیت آپ کے ذریعے ساری دنیا کیلئے‘‘…
کئی سیاسی دانشور گاڈسے کے ہاتھوں گاندھی صاحب کے قتل کی مثال اس شیر سے دیتے ہیں جس کے منہ کو خون تک لگ گیا تھا۔ وہ روزانہ ’’کان پر پنسل‘‘ کی جگہ ’’اپنے پنجے‘‘ تیز کرکے نکلتا اور ایک آدھ جیتے جاگتے انسان کو چیر پھاڑ ڈالتا۔ جب اس ’’چیر پھاڑ‘‘ کے سارے کھرے اس شیر کی طرف نکلے تو لوگ اکٹھے ہوکر اس کے مالک کے پاس شکایت لیکر آ گئے۔ مالک انتہائی معصومیت سے بولا کہ میرا شیر تو انتہائی ’’سو یلائزڈ‘‘ ہے۔ وہ بھلا انسانوں کو کیوں چیرنے پھاڑنے لگا اور ثبوت کے طور پر اس کے منہ میں اپنا سر ڈال دیا اور پھر باہر نکال کر کہا ’’خود دیکھ لو، اس نے کچھ بھی تو نہیں کیا‘‘۔ ایک روز شیر ایک ’’نہتے شخص‘‘ پر جھپٹا لیکن بروقت ’’امداد‘‘ پہنچ گئی اور وہ چیر پھاڑ نہ کر سکا نتیجتاً اسے بھوکا ہی رہنا پڑ گیا۔ لوگ پھر شکایت لیکر آئے، مالک نے پھر وہی ’’کرتب‘‘ دکھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس بار شیر نے روز روز کے کرتب سے تنگ آکر غصے سے دانت دبا کر مالک کا ہی کام تمام کر ڈالا۔ فسادات کے ماہر ولبھ بھائی پٹیل جو داخلہ امور کے وزیر تھے۔ مودی کے گجرات سے ہی ان سے پہلے گاندھی صاحب کی دریافت تھے۔ جب گاندھی صاحب نے بڑھتے ہوئے فسادات پر مرن بھرت رکھا تو ’’بھائی جی ‘‘ موصوف ان سے بہت نالاں رہنے لگے اور پھر ایک روز پٹیل کی اسی ناراضی کے دوران گاندھی صاحب قتل ہو گئے۔ یہ سب واقعات مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب کے ان 30 صفحات میں درج کر رکھے ہیں جو انہوں نے اشاعت سے روک لئے تھے اور وصیت کی تھی کہ انکی موت کے 30 برس بعد شائع کئے جائیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ جوش ہیمر کی کتاب (Israel and civilization) میں اسرائیل اور مغرب کا بتایا گیا ہے۔ ’’ہیمر‘‘‘ لکھتے ہیں کہ مغرب نے اسرائیل کی حمایت کرنی ہی کرنی ہے کیونکہ وہ پورے مشرق وسطیٰ میں مغربی تہذیب کی نگہبانی کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ مذہبی تحریکیں اور تنظیمیں ہوں یا سیکولر حکومتیں یا تحریکیں … ان سب کو ’’چیرنے پھاڑنے‘‘ کی ذمہ داری اسرائیل کو سونپ دی گئی ہے تاکہ مغرب کے سامنے ’’کوئی بھی سر اٹھا کر نہ چلے‘‘ اور اس کے مقاصد ہینگ اور پھٹکڑی لگے بغیر بخیروخوبی پورے ہوتے رہیں۔ لبرل جمہوریت کے سب ’’لاڈلوں‘‘ اور ذمے داروں کو سوچنا تو چاہئے کہ کسی روز اسرائیل ’’بھوکا‘‘ رہ گیا تو کیا ہو گا؟
یادش بخیر ! میر انیس نے تو ’’آبگینے‘‘ اپنے دوستوں کو کہا تھا اور اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ’’ٹھیس‘‘ نہ لگنے کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آجکل کے ’’آبگینوں‘‘ کی شکل لبرل جمہوریت نے اپنا لی ہے جو اب یاہو کے ظلم اور مودی کے اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سے گرے سلوک کا ’’چورن‘‘ وافر مقدار میں کھا کر ہی اپنا وجود قائم رکھ پا رہی ہے۔ اور ہٹلر کے وحشیانہ کرتب تو وہ پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔
میر تقی میر کے لبوں کی طرح لبرل جمہوریت کی نازکی اور آمرانہ اقدامات سے اس کی تازگی دیکھ کر امریکی فلم ڈائریکٹر اور لکھاری مائیکل مور کی کتاب "Farhen heit 9/11"یاد آ گئی جس پر انہوں نے بہت خوبصورت دستاویزی فلم بھی بنا ڈالی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’نائن الیون کے بعد صدر بش سے جب بھی پوچھ لیا جائے کہ آپ نے ایمرجنسی کیوں لگائی‘‘ تو وہ بغیر کسی تامل کے جواب دیتے ہیں ’’آزادیوں کی حفاظت کیلئے۔" اس پر میں پوچھتا ہوں کہ یہ کیسی آزادیاں ہیں جن کی حفاظت کیلئے انہیں غصب کرنا پڑتا ہے تو کوئی جواب ہی نہیں ملتا۔"
ہٹلر مسولینی، یاہو اور مودی اچانک یا راتوں رات پیدا نہیں ہوا کرتے بلکہ حادثوں کی طرح ان کی برسوں پرورش ہوتی رہتی ہے اور یہ پرورش اسی لبرل ڈیموکریسی کی دین ہوا کرتی ہے جس کی تعمیر میں ہمیشہ سے ایک خرابی کی صورت مضمر رہا کرتی ہے۔ یہ خرابی ان اداروں سے گزرے وقت کے ساتھ غفلت بھی ہو سکتی ہے کہ جن کے کندھوں پر جمہوریتوں کی بنیادیں کھڑی ہوتی ہیں۔
بہت ہی خوبصورت لکھنے والے بلکہ ’’الفاظ‘‘ کے جادوگر، امریکی سیاسی مفکر ڈیوڈ رونسی مین نے اپنی کتاب(How Democracy Ends) میں کیا خوب لکھا ہے کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی بلکہ یہ اداروں کی شکست خوردگی ہے جو بذات خود جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن جایا کرتی ہے۔‘‘ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اداروں کے محافظ اور ان کے اصولی قوانین لاپروائی اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی نیند سو جایا کرتے ہیں۔ یعنی ’’بے اصولی‘‘ کو حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے لمبی تان کر سو جائے کیونکہ وہ جب بھی جاگے گی اسی طرح طاقتور اور توانا ہو گی۔ وہ یوں کہ اس کا تو کام ہی سوتے جاگتے ’’تازہ چراغوں کا لہو پینا‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اصول پسندی سو جائے تو عظیم مقاصد انسانیت اور اصولوں کے حامل اداروں کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ شکست و ریخت کا شکار ہو جایا کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام باسیوں اور خصوصاً باشعور حضرات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘ نکولائی گوگول کے افسانے ’’اوور کوٹ‘‘ کی طرح ہوتی ہے جو پیسے جمع کرکے پیٹ پر پتھر رکھ کر بڑے نازونعم سے سلوایا جاتا ہے لیکن کسی طرح ذرا گرفت ڈھیلی ہو جائے تو اندھیری گلیوں میں کھڑے مودی اور یاہو جیسے ’’غنڈے‘‘ ہٹلر کی طرح غراتے ہوئے اسے اچک لے جاتے ہیں اور جمیل الدین عالی کی خوبصورت نظم کی طرح آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں‘‘۔
ناول نگاروں کے ’’امام‘‘ فیو دور دستوفیسکی نے بہت ہی اعلیٰ جملہ لکھا تھا کہ ’’ہم سب گوگول کے اوور کوٹ سے نکلے ہیں‘‘۔ انہوں نے تو یہ جملہ تعریفی ماحول میں کہا ہے لیکن بالکل اسی طرح ’’غنڈوں‘‘ کے ہاتھ میں پڑ کر لبرل ڈیموکریسی کے ’’اوور کوٹ‘‘ سے بھی بہت سی بدعتیں برآمد ہو سکتی ہیں بلکہ ہو رہی ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ’’بھوکا شیر‘‘ اپنے مالک کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا کرتا ہے اور منہ بند، پیسہ ہضم کر دیا کرتا ہے۔
ساحر سے معذرت کے ساتھ… آج ان کا شعرکچھ اس طرح پڑھنے کو دل چاہ رہا ہے:
کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ ’’انسانیت‘‘ کے
ثناء خوانِ تقدیس ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘ کہاں ہیں
٭…٭…٭