آخر کسان کہاں جائے؟

ڈاکٹر ناصر خان 
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں کی معیشت کی بنیادی عمارت زراعت پر قائم ہے۔ ملک کی تقریباً 65 فیصد آبادی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت سے وابستہ ہے، جو کہ اس بات کا غماز ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی کا زیادہ تر دارومدار اس شعبے پر ہے۔ پاکستان دنیا کے اہم زرعی پیداوار کنندگان میں شمار ہوتا ہے، جہاں گندم، کپاس، چاول، گنا، مکئی اور مختلف پھلوں کی پیداوار عالمی سطح پر اہمیت رکھتی ہے۔ ان فصلوں کی پیداوار نہ صرف ملکی معیشت کے لیے اہم ہے بلکہ برآمدات کا ایک بڑا حصہ بھی انہی فصلوں پر منحصر ہے۔ تاہم، اگر ہم کسانوں کی حالتِ زار پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ آج شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی محنت کا فائدہ آڑھتیوں اور بیوپاریوں تک پہنچتا ہے، جبکہ کسان خود مناسب اور منصفانہ قیمت کے لیے جدوجہد کر رہا ہوتا ہے۔ کسان کو سستی کھاد، بیج اور زرعی مشینری کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ حکومتی پالیسیوں کی کمی یا ان کا ناقص نفاذ ان کی مشکلات کو مزید بڑھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، قدرتی آفات، موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کی کمی نے کسانوں کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔ اس پس منظر میں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کسان دن رات محنت کر کے ان فصلوں کو اْگاتا ہے، وہ خود آج کن حالات سے دوچار ہے؟ آخر "کسان کہاں جائے ؟ اس سوال کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوگا تاکہ کسان کی حالت بہتر بنائی جا سکے اور زرعی ترقی کا راستہ ہموار ہو سکے۔
پاکستان کا کسان آج معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے، جو اس کی زندگی کو اجیرن بنا رہا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کسانوں کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے، کیونکہ انہیں زرعی پیداوار کے لیے ضروری اجناس اور وسائل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سستے بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی کمی نے کسان کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ جب کہ زمین پر کام کرنے کے بعد جب فصل تیار ہو جاتی ہے، تو کسان کو اپنی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں مل پاتا۔ بیوپاری اور آڑھتی اپنی مرضی سے قیمتیں طے کرتے ہیں، اور کسان کو اس کی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو زرعی قرضے حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ قرضوں کے حصول کے لیے سخت شرائط اور سود کی شرحیں ایسی ہیں کہ کسان ان قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ تلے دب کر مزید مقروض ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، نہ صرف کسان کی معیشت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کے ذہنی دباؤ اور نفسیاتی حالات بھی بگڑنے لگتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کسان جو ملک کی معیشت کا اہم ستون ہے، وہ خود اپنی زندگی گزارنے کے لیے کس سے مدد طلب کرے؟ معاشی مشکلات، قیمتوں کا تیز بڑھنا اور اپنی پیداوار کے کم قیمت پر بیچنے کی صورتحال نے کسان کو معاشی طور پر کمزور اور نفسیاتی طور پر مایوس کر دیا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی کمی کسانوں کے لیے سنگین چیلنجز بن چکی ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں کے غیر متوقع اوقات، اور سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔مثال کے طور پر، 2024 میں سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی کی لہر نے کسانوں کی فصلوں کو نقصان پہنچایا اور پانی کی ضرورت میں اضافہ کیا.
پانی کی کمی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان کی زرعی زمین کا 90 فیصد سے زائد حصہ نہری آبپاشی پر منحصر ہے، لیکن پانی کی فراہمی میں کمی اور آبی وسائل کا غیر مؤثر استعمال کسانوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی کمی کے شدید مسائل ہیں، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو زرعی پیداوار میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
ایک اور اہم پہلو جو کسانوں کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتا ہے وہ آڑھتی (middleman) کا استحصال ہے۔ آڑھتی کسانوں سے ان کی فصلیں کم قیمت پر خرید کر انہیں مارکیٹ میں زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، جس سے کسان کو اپنی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ آڑھتی کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ کسانوں کے پاس فصلیں فوراً بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس طرح آڑھتی، جو اکثر کسانوں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں نہیں ہوتے، اپنی مرضی سے قیمتیں طے کرتے ہیں اور کسان کو اس کی فصل کی اصل قیمت سے کم رقم دیتے ہیں۔ 
حکومت کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کر سکتی ہے، جن کا مقصد ان کے معاشی مسائل کو حل کرنا اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو زرعی مصنوعات کے لیے ایک منصفانہ قیمتوں کا تعین کرنا چاہیے تاکہ کسان اپنی محنت کا مناسب معاوضہ حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے کسانوں کو آڑھتیوں اور بیوپاریوں کے استحصال سے بچانے کے لیے ایک مضبوط مارکیٹ میکانزم کی ضرورت ہے، جس میں کسانوں کو براہ راست اپنی فصلوں کی بہتر قیمت مل سکے۔ حکومت زرعی مصنوعات کے لیے کمیشن کے بغیر براہ راست مارکیٹ پلیسز قائم کر سکتی ہے یا کسانوں کے گروپوں کو اپنی فصلیں بیچنے کی اجازت دے سکتی ہے تاکہ وہ بہتر قیمت حاصل کر سکیں۔
دوسرا اہم اقدام زرعی آلات اور وسائل کی فراہمی کو سستا بنانا ہے۔ کسانوں کو سستی کھاد، بیج، زرعی مشینری اور پانی کے بہتر وسائل فراہم کرنے کے لیے حکومت کو سبسڈی دینی چاہیے، تاکہ ان کی پیداواری لاگت کم ہو سکے۔ اس کے علاوہ، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو جدید زرعی ٹیکنالوجیز کی طرف راغب کرنا چاہیے، جیسے کہ خشک سالی سے بچاؤ کی فصلوں کی تحقیق اور پانی کی بچت کرنے والی تکنیکیں۔ ان اقدامات سے کسانوں کی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور ان کا مالی بوجھ کم ہو گا، جس سے ان کی معیشت میں بہتری آئے گی۔
تیسرا قدم زرعی قرضوں کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ کسانوں کو قرضے دینے کے لئے سادہ اور کم سود والے قرضے فراہم کیے جانے چاہئیں، تاکہ وہ اپنی زمین کی دیکھ بھال اور جدید زرعی آلات خریدنے کے لیے مالی امداد حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو کسانوں کے لیے زرعی بیمہ اسکیمیں شروع کرنی چاہئیں، تاکہ قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی یا طوفانوں کے دوران ان کا مالی تحفظ ہو سکے۔ اس طرح، حکومت کسانوں کی معیشت کو مستحکم کر کے ان کی زندگی کی معیار کو بہتر بنا سکتی ہے اور زرعی شعبے کی ترقی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
کسانوں کو آڑھتیوںکے استحصال سے بچانے کے لیے حکومت کو چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو کسانوں کے لیے براہِ راست مارکیٹوں یا خریداروں تک رسائی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی فصلیں بغیر کسی درمیانی شخص کے فروخت کر سکیں اور منصفانہ قیمت حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے کسانوں کو ای-کامرس پلیٹ فارمز یا زرعی تعاون کمیٹیوں کے ذریعے براہِ راست رابطہ کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، حکومت کو کسانوں کے لیے قیمتوں کے تحفظ کے قوانین متعارف کرانے چاہئیں تاکہ آڑھتی کسانوں سے فصلیں سستے داموں نہ خرید سکیں۔ اس کے علاوہ، کسانوں کے لیے زرعی مشاورت اور تربیت فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی فصلوں کی مارکیٹ ویلیو اور قیمتوں کا بہتر اندازہ لگا سکیں اور بیچنے کے لیے صحیح وقت کا انتخاب کر سکیں۔ اس طرح کسانوں کو آڑھتیوں کے استحصال سے بچایا جا سکتا ہے اور انہیں اپنی محنت کا مناسب معاوضہ مل سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن