گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
28 اپریل 2025ء کو کینیڈا میں ہونے والے عام انتخابات مکمل ہوئے، جنہوں نے ملک کی سیاسی فضا، داخلی پالیسیوں اور عالمی سطح پر اس کے اثرات کو نئی جہت دی۔ ان انتخابات میں کینیڈا کی پانچ بڑی سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ انتخابات مقررہ وقت سے تقریباً چھ ماہ قبل منعقد کیے گئے، جس نے عوام، میڈیا اور بین الاقوامی مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا۔
مارک کارنے، جو مارچ میں جسٹن ٹروڈو کے استعفے کے بعد عبوری وزیرِاعظم بنے تھے، نے اپنی مختصر عبوری مدت کے دوران ایک غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے فوری انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ حالانکہ آئینی طور پر ان کے پاس اکتوبر 2025 تک کا وقت موجود تھا۔ مارک کارنے کے اس فیصلے کو سیاسی جوا قرار دیا گیا، لیکن اْنہوں نے بروقت حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اندازہ لگا لیا تھا کہ داخلی طور پر معاشی بحران اور بیرونی طور پر ٹرمپ کے بیانات کی روشنی میں جذباتی لہر کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انتخابی نتائج اور عوامی ردِعمل۔مارک کارنے کی قیادت میں لبرل پارٹی نے 168 نشستیں جیت کر اکثریت حاصل کی، جب کہ حکومت بنانے کے لیے 172 نشستیں درکار تھیں۔ اس کامیابی کو کینیڈا کی انتخابی تاریخ کا ایک معجزہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ انتخاب سے قبل لبرل پارٹی کے سروے نتائج نہایت کمزور تھے اور بعض تجزیہ نگار انہیں مکمل شکست خوردہ قرار دے رہے تھے۔ تاہم، دو ماہ کی مہم میں مارک کارنے نے جس طرح عوامی جذبات کو اپنی تقریروں، وعدوں اور پالیسیوں کے ذریعے متحرک کیا، وہ ایک کامیاب حکمتِ عملی ثابت ہوئی۔
جسٹن ٹروڈو کی ناکامی کی وجوہات۔جسٹن ٹروڈو کی حکومت کو عوامی ناراضی کا سامنا کئی پالیسیوں کی وجہ سے تھا۔ سب سے پہلے، اْن کی امیگریشن پالیسی نے شدید ردعمل پیدا کیا۔ شام اور یوکرین سے لاکھوں پناہ گزینوں کو قبول کرنا بظاہر ایک انسان دوست اقدام تھا، لیکن اس سے مقامی جاب مارکیٹ متاثر ہوئی، جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور متوسط طبقے میں بے چینی بڑھ گئی۔اسی طرح تعلیمی شعبے میں سیکس ایجوکیشن کو لازمی قرار دینا اور ٹرانس جینڈر افراد کو سرکاری ملازمتوں میں ترجیح دینا جیسے اقدامات قدامت پسند طبقات کے لیے ناقابل قبول ثابت ہوئے۔ خاص طور پر مذہبی طبقے نے ان اصلاحات کو معاشرتی اقدار کے خلاف سمجھا، جس سے ٹروڈو کی حمایت میں کمی آئی۔
غیر ملکی طلبا اور معاشی دبائو۔گزشتہ چند سالوں میں کینیڈا نے بین الاقوامی طلبا کے لیے دروازے کھول دیے، خصوصاً بھارتی طلبا، جن کی تعداد تقریباً دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے 80 فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ یہ طلبا جز وقتی ملازمتوں میں کم اجرت پر کام کرتے ہیں، جس سے مقامی کارکنوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک عام کینیڈین شہری جو 25 سے 30 ڈالر فی گھنٹہ پر کام کرنے کا عادی ہے، وہ اب ملازمتیں کھو رہا ہے کیونکہ طلبا 10 سے 16 ڈالر میں بھی کام کر لیتے ہیں۔یہ صورتِ حال معاشی دباؤ اور اجرتوں میں غیرمتوازن مقابلہ پیدا کر رہی ہے، جس کے اثرات نہ صرف مقامی بازاروں بلکہ قومی معیشت پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ لبرل پارٹی نے ان حقائق کو نظر انداز کیا، جس سے عوامی اعتماد میں کمی آئی اور یہی وجہ تھی کہ ٹروڈو کو سیاسی طور پر سبکدوش ہونا پڑا۔
مارک کارنے کا پس منظر اور کامیاب حکمت عملی۔مارک کارنے کا پس منظر معاشی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ بینک آف کینیڈا، بینک آف انگلینڈ اور بینک آف امریکہ جیسے بڑے مالیاتی اداروں کے گورنر رہ چکے ہیں۔ اگرچہ وہ پہلی بار سیاست میں قدم رکھ رہے تھے، لیکن ان کا معاشی فہم اور عالمی سطح پر تعلقات کا نیٹ ورک اْن کی سب سے بڑی طاقت بنے۔
کارنے نے اپنی مہم میں سیاسی بیان بازی سے اجتناب کرتے ہوئے عوامی مسائل — مہنگائی، روزگار، صحت، تعلیم — کو فوکس کیا۔ اْنہوں نے واضح کیا کہ وہ کینیڈا کو معاشی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ عوام نے بھی انہیں ایک سنجیدہ اور باصلاحیت رہنما کے طور پر قبول کیا۔
پیری پولیور اور ریپبلکن پارٹی کی ناکامی۔ریپبلکن پارٹی کے رہنما پیری پولیور، جو ماضی میں مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے تھے، اس بار متنازع بیانات اور امریکی ریپبلکن پارٹی سے قربت کی وجہ سے نقصان اٹھا بیٹھے۔ خاص طور پر ٹرمپ کے اس بیان پر کہ وہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانا چاہتے ہیں، پیری پولیور کا خاموش رہنا عوام کو یہ تاثر دینے لگا کہ شاید وہ اس ایجنڈے سے متفق ہیں۔یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ذاتی نشست بھی نہ بچا سکے، اگرچہ ان کی پارٹی نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 15 نشستیں زیادہ حاصل کیں۔ ان کی قیادت پر سوالات اٹھنے لگے اور امکان ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی قیادت سے مستعفی ہو جائیں گے۔
نیو ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کا زوال۔نیو ڈیموکریٹک پارٹی جو کبھی تیسرے بڑے بلاک کے طور پر سامنے آتی تھی، اس بار محض 7 نشستیں جیت سکی۔ جگمیت سنگھ کی قیادت عوام کو قائل نہ کر سکی، اور پارٹی کے اندرونی اختلافات، واضح نظریاتی پالیسی کا فقدان اور محدود مہم کے باعث وہ مکمل طور پر سیاسی منظرنامے سے باہر ہو گئی۔ جگمیت سنگھ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔
عالمی تناظر میں کینیڈا کی پوزیشن۔کینیڈا نے حالیہ انتخابات کے بعد یورپ کے ساتھ اپنی وابستگی کو واضح کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی ممکنہ خارجہ پالیسی سے فاصلہ اختیار کرے گا۔ چونکہ ٹرمپ نیٹو اتحاد کو ختم کرنے کے حق میں ہیں، اس لیے کینیڈا کی یہ پوزیشن یورپی ممالک کے لیے حوصلہ افزا ہے۔دوسری جانب، امریکہ نے یوکرین جنگ میں دیے گئے 350ارب ڈالر قرض کی واپسی کا مطالبہ سود سمیت کر دیا ہے۔ اس سے یوکرین میں بے چینی اور یورپ میں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
عالمی معیشت پر اثرات۔کینیڈا کی موجودہ صورت حال ایک بڑے عالمی رجحان کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں معاشی غیر یقینی صورتحال ہے — مہنگائی، کساد بازاری، اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، اور روزگار کے مواقع کی کمی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ کینیڈا ایک مستحکم معیشت ہے، لیکن عالمی سطح پر کشیدگی اور جنگوں کے اثرات اسے بھی متاثر کر رہے ہیں۔پاکستان، بھارت، غزہ، شام، عراق، یمن، اور افریقہ کے بعض ممالک میں جاری تنازعات نے عالمی منڈیوں کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ ان حالات میں اگلے ایک یا دو سال پوری دنیا کے لیے آزمائش سے کم نہیں ہوں گے۔
کینیڈا کے حالیہ انتخابات ایک تاریخی موڑ پر منعقد ہوئے۔ ایک طرف داخلی مسائل نے عوام کو پریشان کر رکھا تھا، تو دوسری طرف بین الاقوامی تعلقات کی نئی سمت متعین ہو رہی تھی۔ مارک کارنے جیسے معاشی ماہر کی سیاسی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اب بیانات سے زیادہ عمل اور اہلیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عالمی منڈی پر اس کے اثرات وقت کے ساتھ نمایاں ہوں گے، خاص طور پر جب کینیڈا نئی معاشی و سفارتی پالیسیوں کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
بہرحال اس وقت عالمی منظرنامے پر آپ کو ہر روز ایک ملک کا دوسرے کو نیچا دکھانا اور معیشتوں پر سائبر اٹیک سمیت سٹاک مارکیٹ کے ساتھ کھلواڑ شامل ہیں اور یقینا جب سرمایہ دار کا سرمایہ ڈوبے گا تووہ کہیں نہ کہیں سے پھر سے جنریٹ کرنے کا حل سوچے گا۔اس طرح شاید معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا لیکن ایک عام آدمی تک اس کے فوائد پہنچنے میں کچھ دیر لگے گی۔قارئین!اب وقت آ گیا ہے کہ ملکی معاملات کو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ معیشت دانوں سے بھی منسلک کیا جائے کیونکہ ایک اچھا سیاستدان ہونے کا مطلب، ایک اچھا معیشت دان نہیں ہوتا۔اس لیے پاکستان کی سیاست میں کچھ معاشی ٹیکنوکریٹس کو شامل کیا جائے جو موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ملکی ترقی کی سمت متعین کر سکیں۔