یہ 1970ء کی بات ہوگی ۔موچی دروازہ لاہور میں جمعیتہ علماء اسلام کی ایک سہ روزہ کانفرنس ہورہی تھی۔سٹیج پر مولانامفتی محمود اورمولانا غلام غوث ہزاروی کے ساتھ مولانا کوثر نیازی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ تقاریر تمام ہوچکی تھیںاور اب چائے کا دورچل رہا تھااور اگلے روز کیلئے مولانا عبیداللہ انور کے خطاب کا پروگرام ترتیب دیاجارہا تھا۔ان کی تقریر بہت اہم تھی کیونکہ وہ خود لاہور سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا ایک بڑا حلقہ سیاسی ومذہبی حوالے سے موجودتھا۔مولانا عبید اللہ انورنے جب اگلے روز خطاب کیا تو پیپلز پارٹی ان کی خاص طور پر بڑی ممنون ہوئی کیونکہ جماعت اسلامی نے تو انہیں کافر مرتد،سوشلسٹ قرار دیا ہوا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی کردارکشی کیلئے بھی وقت نکال لیتے تھے۔ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی جس میں جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی موٹی دائیں بازو کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کوکفر کا علمبردار بناکر پیش کیا ۔اس کام کیلئے "اسلام خطرے میں ہے"کا نعرہ ایجاد کیاگیا ۔حبیب جالب نے اس ماحول میں اپنی شہر آفاق نظم لکھی ۔خطرہ ہے زرداروں کو۔ ،رنگ برنگی کاروں کو۔۔ امریکہ کے یاروں کو ۔۔خطرے میں اسلام نہیں ۔کیونکہ پاکستان میں امریکی مفادات کی نگہبان جماعت اسلامی ہی گنی جاتی تھی ۔موچی دروازہ میںمولانا عبیداللہ انور نے اپنے خطاب میں واضح الفاظ میں کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی اور اسکے کارکن یقینا مسلمان ہیں۔ان سے کسی کا سیاسی اختلاف اپنی جگہ ہوگا مگر اس اختلاف کی بنیاد پرکسی کو کافر کہنا خود اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے ۔کچھ دنوں بعد ایک جمعرات کو شیر انوالہ گیٹ کی مجلس ذکر میں گیا تو وہاں پیپلزپارٹی کے آفس سیکرٹری حنیف رامے اور لاہور کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی موجود پایا جو مولانا کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے اور انہیں اپنے کسی جلسے میں خطاب کی دعوت بھی دی ۔مولانا نے جواباً کہا کہ اس کا فیصلہ جمیعتہ کی ورکنگ کمیٹی کریگی۔مولانا غلام غوث ہزاروی کا سیاسی رجحان زیادہ تر ذوالفقار بھٹو کی طرف تھا۔ایک وقت میں ان جماعتوں کے جلسوں ،جلوسوں میں دونوں کے کارکن اور کبھی کبھی کوئی مقامی راہنما بھی شریک ہوجاتا ۔جمیعتہ علماء اسلام کے اعلی حلقوں میں پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی یا انتخابی اتحاد تک بنانے کی بات چل رہی تھی کہ اتنے میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے دیگر حلقوں کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خاں سے مولانا مفتی محمود کے مقابلے میں بھی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا جب یہ خبر جمعیتہ کی اعلی قیادت تک پہنچی تو وہ حیران رہ گئے اور پھر کسی قسم کی اتحاد کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اب نہ مفتی محمود ہیں نہ مولانا غلام غوث ہزاروی اور نہ ذوالفقار علی بھٹو، سب اپنا اپنا اعمال نامہ لیکر اس رحیم وکریم کے پاس جاپہنچے ۔ہاں البتہ مولانا عبیداللہ انور کے جانشین جناب اجمل قادری اس امر سے بخوبی آگاہ ہوں گے اور شاید اسکے گواہ بھی۔ ہماری ملکی سیاسی تاریخ کایہ اہم باب ہے۔ایک بار میں اور نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی نائب صدر شیخ ریاض نے جمعہ کی نماز لاہور شیرانوالہ گیٹ میں جناب اجمل قادری کی امامت میں اداکی اور نمازکے بعد انہوں نے شفقت کرتے ہوئے دوپہر کے کھانے کا انتظام بھی کیاتھا،جہاں یہ سب تاریخ ہم نے ان کی زبانی سنی۔اسکے بعد1970ء کے انتخابات جب ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو کو مفتی محمود سے شکست کھاناپڑی ۔اعتماد کا جو فقدان پیدا ہواوہ بھٹو کی پھانسی تک برقرار رہا۔ حالات اس نہج پرپہنچ چکے تھے کہ چاہنے کے باوجود بھی مولانا ہزاروی عملی طورپر پیپلز پارٹی کی کوئی مددنہ کرسکے ۔یہاں جمیعتہ علماء اسلام کی سیاسی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں ،یہ کام اس جماعت کے اکابرین کا ہے۔تاہم مولانا عبیدا للہ انور جیسے ولی دوراںکے ساتھ جو ذہنی وقلبی تعلق رہا‘ اسکے حوالے سے مسجد شیرانوالہ گیٹ میں جتنا وقت صرف ہوا اور اس دوران جوواقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ایک امانت سمجھ کر سپرد قلم کردیئے۔ دراصل 70ء کے بعد یعنی گذشتہ 50 سالہ قومی سیاسی تاریخ کے بہت سے پہلو تشنہ طلب اورکچھ وضاحت طلب رہے ۔اس دوران عملی اور ہمہ وقت سیاست کرنیوالے اب کم رہ گئے ہیں کچھ لوگ نصف صدی کی یہ تاریخ گاہے بیان کرتے رہتے ہیں۔ انکے اپنے اپنے تعصبات بھی ہوںگے مگرلوگ سب سے بڑے منصف ہیں انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کہاں واقعات کو صحیح رخ پر پیش نہیں کیاگیا۔اس سب کے باوجود ہم جیسے سیاسی کارکنان سے علمی وعملی فائدہ اٹھانا از بس ضروری ہے۔یہ میرے اللہ کا خاص کرم ہے کہ بہت قومی سیاست کے بہت سے باب اور موڑپر نظردوڑاتا ہوں توحافظہ یکدم بیدارہو جاتاہے۔ ایک ایک لمحہ ،ایک ایک شہر ایک ایک راہنما اسکی سچائیاں اسکے جھوٹ ،چالبازیاں،سازشیں،کوتاہ نظریاں، سامنے آجاتی ہیں اور پھر یہ بھی اس کا کرم رہا کہ ملک کی صف اول کی سیاسی قیادتوں سے لے کر عام کارکن تک ذاتی تعلق رہا ۔خاص طورپر جن راہنمائوں کے ساتھ قید وبند میں رہنے کا اتفاق ہوا،وہ توایک کھلی کتاب کی مانند ہیں مولانا عبیداللہ انور سے لیکر سابق صدر فاروق لغاری تک ایک طویل فہرست ہے ان تمام مہربانوںکی جس کا ذکر قبل ازیں "نوائے وقت" کے سنڈے میگزین کے صفحات میں مسلسل 10ماہ تک "جیل کے دن۔جیل کی راتیں"کے عنوان سے کرتا رہا ہوں۔کئی احباب کا اگر چہ کہنا ہے کہ میری تحریرزیادہ تر واقعاتی ہے تو ان کا کہنا غلط نہیں ۔ان واقعات کا محاکمہ کرکے کوئی نیا راستہ تراشنا ہے تو اسے گویا بات سمجھ آگئی ۔اسی لئے آج کی سیاست اور سیاست دانوں کے کردار وعمل اورسیاست کے "اصولوں"پر نظر دوڑاتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آج سے 50برس بعد کوئی میرے جیسا اسکی تاریخ لکھنے بیٹھا توکیالکھے ۔