'' ماضی کا راولپنڈی ''

ٹی ٹاک 
طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

 اس عید پر بابا کرمو سے ارادتا ملاقات ہوئی۔کہا کیا تمہیں راولپنڈی کی تاریخ جاننے کا شوق ہے۔ جواب دیا کیوں نہیں!! میری تو جائے پیدائش ہی راولپنڈی کی ہے۔ میٹرک تک اسی شہر سے پڑھا۔ میرا گاؤں بھائی خان راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان میں واقع ہے ، اس ناتے اچھی نہیں بلکہ بہت اچھی یادیں  اس تاریخی شہر سے وابستہ ہیں۔  قیام پاکستان سے پہلے راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان ایک بڑی منڈی ہوا کرتی تھی یہاں خریدار اجناس خرید کر کشمیر لے جایا کرتے تھے۔بابا کرمو نے بتایا کہ اس بار مجھے راولپنڈی گھومنے کا اتفاق ہوا وہ پنڈی پنڈی نہیں رہا جس کو بچپن میں دیکھا کرتے تھے۔ ویسٹریج ریلوے روڈ پر القمر فلور مل کے قریب سرائے بیلی رام  (امریکہ میں جیسے موٹل ) ہوا کرتی تھی جس میں رہائش اور شاپنگ ایریا تھا۔کہا  کہ  پل کراس کرتے تو سامنے تھانہ الف ڈویڑن نظر آتا تھا اس سے گزر کر گنج منڈی جاتے جہاں ٹرک کے کھڑے دکھائی دیا کرتے۔  الٹے ہاتھ مڑ جاتے تو ڈنگی کھوئی، ورکشاپی محلہ ( راجہ بازار ) پہنچ جاتے۔ گنج منڈی سے نمک منڈی داخل ہوتے تو شملہ اسکول آتا۔درسگاہ کی مین انٹرنس پر کریانہ شاپ تھی جس کے مالک صوفی صاحب تھے آپ نے جتنے حج عمرے کئے اتنے ہی شادیاں رچائیں پھر ہر شادی کے بعد مکان کے اوپر نیا پورشن دلہن کو بنا کر دیا کرتے۔ بابا کرمو نے چائے کی نشست پر  راولپنڈی کی تاریخ بتائی۔ پھر  ایک پرچی جیب سے نکالی اسے پڑھا جو جاتے ہوئے مجھے دے گئے جس میں شہر کی پوری تاریخ درج تھی۔ دھن راج کی سرائے راولپنڈی صدر میں  مشہور جگہ تھی۔ یہاں سے ڈاک اور مسافر روزانہ مری اور کشمیر بذریعہ بگھی جاتے تھے۔ ہر روز یہاں سے تین ٹانگوں کا قافلہ چلا کرتا تھا۔ ایک تانگہ صرف ڈاک اور حفاظتی عملے کا ہوتا۔ جبکہ دو میں سواریاں ہوا کرتی تھیں۔ اس سرائے کے اصل مالک سردار سوہن سنگھ اور موہن سنگھ تھے۔ صدر میں کنٹونمنٹ ہسپتال کے سامنے ٹانگوں کا اڈا ایک پارسی دھن جی بھائی کا  تھا۔ جہاں سے گھوڑا اور بیل گاڑیاں مری اور سری نگر کشمیر جایا کرتی تھیں۔ ہر روز مری کے لئے چھ گھوڑا گاڑیاں روانہ ہوتی تھیں۔ چار گاڑیوں میں مسافر اور دو گاڑیوں میں محافظ اور ڈاک ہوتی تھی۔ مری جانے کے لئے سات گھنٹے اور واپسی میں پانچ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ پہلی بس  1907 میں پنجاب موٹرز ٹرانسپورٹ کمپنی نے راولپنڈی سے مری کے لئے روانہ کی۔ جس نے دس گھنٹے میں یہ سفر طے کیا۔باقاعدہ تیز بسوں کا اجرا 1916 میں جا کر ممکن ہوا۔ راولپنڈی سے گوجر خان ٹانگہ تقریبا پانچ گھنٹے لیتا تھا۔ راستہ میں مندرہ اور روات میں پندرہ بیس منٹ تانگہ رکا کرتا تھا۔ راولپنڈی سے کشمیر باربرداری بیل گاڑیوں کے ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ ان کا بڑا اڈا مائی ویرو کی بن ( بنی) تھا۔ بیل گاڑی کے ذریعہ بار برداری کا سلسلہ 1940 تک جاری رہا۔ یہ بیل گاڑیاں پندرہ بیس کے قافلہ میں جایا کرتی تھیں۔روزانہ دس بارہ میل کا سفر طے کرتے بائیس دن میں سری نگر کشمیر پہنچا کرتی تھیں۔ عام لوگ بھی ان بیل گاڑیوں میں ہی سفر کرتے تھے۔ انگریز اور امیر لوگ بذریعہ ٹانگہ، ٹم ٹم اور فٹن کشمیر کا سفر کرتے تھے۔پہلی جنگ عظیم میں تیسرا وکٹوریہ کراس نائیک شامد خان بھٹی موضع تختی ضلع راولپنڈی نے حاصل کیا۔ اسی طرح پہلا نشان حیدر بھی ضلع راولپنڈی کے کیپٹن محمد سرور شہید کو ملا۔ راولپنڈی کی دو سڑکیں ، ٹھنڈی سڑک یعنی مال روڈ اور دوسری سٹی صدر روڈ بہت مشہور ہوا کرتی تھیں۔ ٹھنڈی سڑک (مال روڈ)پر انگریز شام کو سیر کیا کرتے تھے۔ مقامی لوگ صرف سیر کرنے والوں کو دور سے دیکھ سکتے تھے۔ مگر خود سیر نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ سٹی صدر روڈ دیسی/ ہندوستانی ثقافت کا مرکز تھا۔سیڑھیوں(پوڑیوں )والے پل پر بھکاریوں کا قبضہ تھا۔(اور آج بھی ہے )جبکہ سٹی صدر روڈ شعبدہ بازوں،نجومیوں،حکیموں جیب کتروں۔ نائیوں، دندان سازوں اور اسی قماش کے لوگوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ سیاست کا مرکز گنج منڈی تھا۔ راج تلک کی موت پر یہاں پہلا جلسہ ہوا اور پھر اس کے بعد کانگریس  نے اپنا ہر جلسہ گنج منڈی میں کیا۔ اس زمانے میں عام طور پر مرکزی جامع مسجد، گنج منڈی، کمپنی باغ، گوردوارہ راجہ بازار اور مائی ویرو کی بن (بنی )میں جلسے ہوا کرتے تھے۔سیٹھ آدم جی اور ماموں جی نے اسلامیہ ہائی سکول مری روڈ کے قیام میں بہت مالی امداد دی۔ زمین سیٹھ ماموں جی نے مری روڈ پر خرید کر عطیہ کی تھی۔ اسی لئے سکول کا نام  ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول رکھا گیا تھا۔ جس نے اپریل 1896 میں کام کرنا شروع کیا۔راولپنڈی تک ریلوے لائن 1879 میں مکمل ہوئی۔ اور پہلی گاڑی ایسٹر کے تہوار 11 اپریل 1880 کو راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچی۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن کچہری کے پاس ہوتا تھا۔ اور یہ براستہ مندرہ، روات، سواں کیمپ، ہمک سے راولپنڈی آتی تھی۔ بعد میں 1895 میں مندرہ ، لوہدرہ (بعد میں اس اسٹیشن کا نام مانکیالہ رکھا گیا)سہالہ سے ایک اور لائن بچھائی گئی جو موجودہ ریلوے اسٹیشن تک تھی۔ جہاں ایک خوبصورت ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا گیا۔ یکم جنوری 1881 کو راولپنڈی اور لارنس پور کے درمیان ریل چلی۔ اور اسکے بعد راولپنڈی۔ خوشحال گڑھ ریلوے لائن مکمل ہوئی۔چکلالہ میں ہوائی اڈہ  1930 میں تعمیر ہوا۔ اسے دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش ائیر فورس کے متبادل ہوائی اڈہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ راولپنڈی میں گولیاں والی مسجد، کیلیانوالی مسجد مشہور تھیں۔ اسکے علاوہ دو چار اور چھوٹی چھوٹی مساجد تھیں۔ مگر کوئی مرکزی جگہ نہیں تھی۔ قاضیاں تحصیل گوجر خان کے قاضی گوہر علی نے راولپنڈی میں مرکزی جامع مسجد کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ موجودہ جگہ خریدی گئی۔ جہاں کھیت ہی کھیت تھے۔ تعمیر شروع ہوئی جس میں راولپنڈی کے مسلمانوں نے مالی مدد بھی کی اور ہزاروں لوگوں نے مزدوری میں بھی حصہ ڈالا۔  مسجد کا افتتاح کابل کے بادشاہ اور پیر صاحب گولڑہ شریف پیرسید مہر علی شاہ نے کیا۔ مسجد کی تعمیر میں سب سے زیادہ چندہ پشاور کی کاروباری شخصیت سیٹھ کریم بخش نے دیا۔ سیٹھ کریم بخش نے مسجد میں رہائش کے لئے ایک کمرہ بنوایا۔ وہ تقریبا ہر جمعرات کو راولپنڈی آتے اور دوسرے دن جمعہ پڑھ کر واپس چلے جاتے۔ اسی کمرے میں آجکل اوقاف کا دفتر ہے۔راولپنڈی کو یہ شرف حاصل ہے کہ پورے بر صغیر میں عید میلاد کا پہلا جلوس یہاں سے نکلا اور پھر اسکی تقلید میں دوسرے شہروں میں میلاد جلوسوں کی ابتدا ہوئی۔جب پنڈی کی جامع مسجد تعمیر ہوئی تو ہندو اور سکھ دانستہ اپنے تہوار منانے کے بہانے شب کیرتن، بھجن اور ڈھول باجے بجاتے مسجد کے سامنے سے گذرتے۔ جس پر مسلمان اعتراض کرتے۔ انہوں نے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لئے مسجد کو مسمار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہیں انگریز حکومت کی آشیرباد حاصل تھی۔ 21 مئی 1926 کی رات کو انہوں نے مسجد پر حملہ کر دیا۔ مسلمان بھی تیار تھے۔ خوب فساد ہوا۔ دونوں طرف سے بے شمار لوگ گرفتار ہوئے۔ آخر ڈپٹی کمشنر  نے کشیدگی کم کرنے کے لئے دونوں طرف کے سرکردہ رہنماں کا اجلاس طلب کیا اور وہاں فیصلہ ہوا کہ جس طرح ہندو سکھ اپنے اپنے تہوار منانے کی غرض سے جلوس مسجد کے سامنے سے گذارتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی جلوس نکالیں اور ہندوں کے مندروں اور سکھوں کے گردواروں کے سامنے سے گذریں۔ اس فیصلے کے بعد 1927 میں راولپنڈی میں برصغیر کا پہلا عید میلاد کا جلوس نکالا گیا۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ راولپنڈی شہر تحصیل مری کے قریب ہے۔ مری میں برف باری ہر سال ہوتی ہے۔ برف دیکھنے کو لوگ دور دور سے آتے تھے اور ہیں یہ سلسلہ اج بھی جاری ہے گرمیوں میں مری کا موسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ مری کی ہوائیں راولپنڈی کے موسم پر اثر انداز رہتی ہیں۔ اسلام آباد دارلخلافہ بننے کے بعد راولپنڈی جڑواں شہر بن گئے۔

ای پیپر دی نیشن