برصغیر :جنوبی ایشیا کی زریں تہذیبوں کا مرکز

سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی   برصغیر جنوبی ایشیا کا وہ خطہ ہے جو صدیوں سے تہذیبوں، سلطنتوں اور مختلف قوموں مسکن رہا ، خطے کی تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہاں ہمیشہ مختلف ثقافتیں، زبانیں، اور مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہے، لیکن کسی ایک سیاسی قوت کے تحت طویل مدت تک متحد نہ رہ سکے۔ اگرچہ اشوک اور اکبر جیسے عظیم حکمرانوں کے دور میں کچھ وقت کے لیے پورا برصغیر ایک مرکزی حکومت کے زیرِ نگیں رہا، مگر ان کے بعد یہ خطہ ایک مرتبہ پھر مختلف ریاستوں اور سلطنتوں میں بٹ گیا۔انگریزوں کی آمد نے پہلی مرتبہ برصغیر کو ایک براعظمی ریاست کی صورت میں جوڑا۔ لیکن یہ اتحاد عوامی امنگوں یا جمہوری اقدار کی بنیاد پر نہیں بلکہ استعماری مفادات کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ انگریزوں کا مقصد صرف اپنی طاقت اور منافع کو بڑھانا تھا، نہ کہ مقامی عوام کو ایک حقیقی متحد قوم میں ڈھالنا۔ 1947 میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو پاکستان اور بھارت دو علیحدہ ریاستوں کی صورت میں ابھرے، لیکن یہ علیحدگی بھی خونریز فسادات اور کروڑوں افراد کی ہجرت کا المیہ اپنے ساتھ لائی۔پاکستان، جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا، ابتدا سے ہی سیاسی عدم استحکام، اندرونی تضادات، اور جمہوری اداروں کی کمزوری کا شکار رہا۔ قیامِ پاکستان کے صرف 24 سال بعد، 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام نے یہ واضح کر دیا کہ قومی وحدت محض مذہبی شناخت پر قائم نہیں رہ سکتی، جب تک کہ ہر طبقے کو سیاسی، سماجی، اور معاشی انصاف نہ ملے۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے، جس نے نہ صرف ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔دوسری جانب بھارت، جو ایک سیکولر ریاست کے طور پر ابھرا، اپنے وسیع رقبے، بڑی آبادی، اور متنوع ثقافتوں کے باوجود ایک مستحکم جمہوری نظام کو فروغ دینے میں کسی حد تک کامیاب رہا۔ اگرچہ بھارت کو بھی نسلی، مذہبی اور لسانی کشیدگیوں کا سامنا رہا ہے، مگر اس کے جمہوری ادارے وقت کے ساتھ مضبوط ہوتے گئے۔ اس کے برعکس پاکستان اور بنگلادیش نے جمہوریت کے میدان میں کئی نشیب و فراز دیکھے، جن میں فوجی آمریتیں، عدالتی مداخلتیں اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو عوام کو آواز دیتا ہے، ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے، اور اداروں کو مضبوط کرتا ہے۔ تاہم، برصغیر کے تینوں بڑے ممالک میں جمہوریت کو مسلسل خطرات لاحق رہے ہیں۔ کہیں مذہبی انتہاپسندی جمہوری آزادیوں کو نگلتی رہی، تو کہیں طاقتور طبقے اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے۔ فوج، بیوروکریسی، اور جاگیردارانہ نظام نے پاکستان اور بنگلادیش میں جمہوری اقدار کو پنپنے نہیں دیا۔علاقائی امن کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسا خواب ہے جو تاحال پورا نہیں ہو سکا۔ پاکستان، بھارت اور بنگلادیش تینوں ہی ممالک بارہا جنگی ماحول، سرحدی کشیدگی، اور سفارتی تلخیوں کا شکار رہے ہیں۔ یہ رویہ اس حقیقت کو جھٹلاتا ہے کہ اگر یہ خطہ پرامن ہو جائے، تو دنیا کے نمایاں اقتصادی اور ثقافتی مراکز میں شامل ہو سکتا ہے۔ برصغیر کی اقوام محنتی، باصلاحیت اور وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان صلاحیتوں کو جنگی سازشوں اور سیاسی کھیلوں میں ضائع کیا جاتا رہا ہے۔بھارت، جسے اس خطے میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی ہے، کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون اور خیرسگالی کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت کا رویہ اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے وہ خطے پر بالادستی قائم کرنا چاہتا ہو۔ مشرقی پاکستان کے بحران میں اس کا کردار سب کے سامنے ہے، اور آج بھی وہ رویہ جاری ہے جس میں چھوٹے ہمسایہ ممالک کے تحفظات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔بھارت کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کو مسلسل نظرانداز کرنا اور طاقت کے ذریعے اسے دبانے کی کوشش کرنا خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کشمیر ایک ایسا حساس مسئلہ ہے جسے عوامی امنگوں اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کیے بغیر پائیدار امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کے حوالے سے بھارت کے اقدامات بھی تشویش کا باعث ہیں، جو کہ پاکستان کے لیے زرعی و معاشی زندگی کی حیثیت رکھتے ہیں۔پاکستان کے اندر پانی کی کمی، خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں، ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اگر بھارت اس معاہدے کی روح کے مطابق پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی نہیں بناتا، تو یہ تنازع کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پانی زندگی کی بنیاد ہے، اور اس پر کسی قسم کا زبردستی قبضہ یا رکاوٹ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن سکتا ہے۔یہ وقت ہے کہ برصغیر کے تمام ممالک اپنی انا، تاریخی تلخیوں اور قومی مفادات کو ایک طرف رکھ کر مشترکہ ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے کام کریں۔ جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو مساوات، آزادی، اور احترامِ انسانیت کو فروغ دیتا ہے۔ اگر بھارت، پاکستان اور بنگلادیش ایک دوسرے کے ساتھ امن، تعاون اور اعتماد کی فضا قائم کریں، تو نہ صرف خطے کے مسائل حل ہوں گے بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک نئی مثال بن سکتے ہیں۔آج کے عالمی تناظر میں جب دنیا کے مختلف خطے اقتصادی تعاون، علاقائی انضمام اور مشترکہ ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جنوبی ایشیا کا پیچھے رہ جانا افسوسناک ہے۔ سارک (SAARC) جیسا پلیٹ فارم اگر موثر طور پر فعال ہو جائے تو یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت، تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں غیر معمولی پیش رفت کر سکتے ہیں۔آخر میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک مضبوط، انصاف پر مبنی، اور عوام دوست جمہوریت ہی اس خطے کو اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نکال سکتی ہے۔ قوموں کی ترقی کا راز فوجی طاقت یا معاشی برتری میں نہیں، بلکہ اپنے عوام کو عزت، تحفظ اور مواقع دینے میں ہے۔ برصغیر کے باسی اب تھک چکے ہیں؛ انہیں اب جنگ نہیں، امن چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت، پاکستان، اور بنگلادیش اپنے ماضی سے سیکھیں اور ایک روشن، پرامن مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

ای پیپر دی نیشن