قاتل‘ مقتول اور مردہ ضمیر


انسان قتل کیوں کرتا ہے ؟ قاتل کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ ادیب اور دانشور صدیوں سے اس موضوع پر لکھ رہے ہیں۔ قتل کرنے کے بعد قاتل کس ذہنی اذیت سے گزرتا ہے اس کی نہایت خوبصورت عکاسی 1606ءمیں شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق ڈارمے ”میکبیتھ“ میں کی ہے۔ لیڈی میکبتھ جواپنے شوہر کو بادشاہ بنوانے کیلئے سکاٹ لینڈ کے بادشاہ ڈنکن کو قتل کروا دیتی ہے مگر یہ قتل اس کیلئے ایک ایسا پچھتاوا بن جاتا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ ہر وقت خون میں رنگے نظر آتے ہیں اور وہ بار بار اپنے ہاتھ دھوتی رہتی مگر نہ تو خون کی بو جاتی ہے اور نہ ہاتھوں سے خون کا رنگ اور وہ بے اختیارچلا اٹھتی ہے۔
"Here's the smell of the blood still, ALL THE PERFUMES OF ARABIA CAN NOT SWEETEN THIS LITTLE HAND. OH.... OH... OH"
1890ءمیں مشہور شاعر اور ادیب آسکر وائلڈ نے اپنے ناول ”پکچر آف ڈورین گرے“ میں ایک 18 سالہ خوبصورت وجیہہ نوجوان ڈورین گرے کی صورت میں ایک ایسا کردار پیش کیا ہے جو جرم اور گناہ کی دلدل میں دھنس جاتا ہے اور پھر اپنی تصویر بنانے والے مصور باسل ہال ورڈ کو بھی قتل کر دیتا ہے۔ مگر یہ گناہ اسے چین نہیں لینے دیتا اور جب بھی وہ اپنی تصویر کو دیکھتا ہے اسے اس میں اپنا بھیانک چہرہ نظر آتا ہے اور اسے اپنے قاتل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہی احساس آخر کار اسے ایک دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ خودکشی کر لیتا ہے۔
آسکر وائلڈ اور شیکسپیئر دونوں اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسان بنیادی طور پر معصوم اور نیک فطرت ہوتا ہے اور اگر نفرت، غصے یا وقتی لالچ کی بدولت وہ کسی انسان کا خون کر بھی بیٹھے تو اسے اس کا ضمیر اسے چین سے نہیںرہنے دیتا اور وہ ساری عمر پشیمان رہتا ہے اور یہ بوجھ لئے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔
برطانوی افسانہ اور ڈرامہ نگار سمرسٹ ماہم میرے پسندیدہ ادیبوں میں شامل ہے۔ برطانیہ میں قیام کے دوران مجھے ایک رات ایک موٹل میں قیام کرنا پڑا جو سمرسٹ ماہم کے نام پر رکھی جانےوالی ماہم سٹریٹ پر واقع تھا۔ میں نے خاص طور پر کونسل میں رکھی جانےوالی کتاب میں ماہم کے بارے میں تاثرات لکھے۔ سمرسٹ ماہم کی مختصر کہانیوں کا خاص موضوع جرم اور مجرموں کی نفسیات ہے ۔ ماہم نے ان کہانیوں کیلئے کافی عرصہ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ گزارا۔ اسکی اکثر کہانیوں کے تانے بانے ایسے کرداروں کے گرد گھومتے ہیں جو عادی مجرم نہیں بلکہ عام انسان ہیں مگر وہ جرم کر بیٹھتے ہیں۔ سمرسٹ ماہم شیکسپیئر اور آسکر وائلڈ کے اس نظرئیے سے اتفاق نہیں کرتا کہ قتل کرنےوالے مجرم قتل کرنے کے بعد پشیمان ہوتے ہیں یا ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں جو کہانیاں لکھیں ہیں ان کہانیوں کے کردار قتل کرنے کے بعد اپنے دل پر کوئی بوجھ نہیں رکھتے بلکہ مقتول سے ہمدردی کے بجائے ان سے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہیں کہ انکی وجہ سے وہ آج قید میں ہیں۔ ان کہانیوں میں خاص طور پر این آفیشل پوزیشن شامل ہے جو ایک ایسے پولیس آفیسر کی کہانی ہے جو اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور اسے بارہ سال کیلئے قید کی سزا سنائی جاتی ہے مگر اسے اپنے کیلئے پر ذرا بھی پشیمانی نہیں ہوتی اور وہ اپنی زندگی کی تمام مصیبتوں کا ذمہ دار اپنی بیوی کو قرار دیتا ہے اور اس کے قتل کو درست فیصلہ سمجھتا ہے۔
کئی سال پہلے جب میں نے سمرسٹ ماہم کی یہ کہانیاں پڑھیں تو سمرسٹ ماہم کے قلم کی جادوگری سے متاثر ہونے کے باوجود مجھے دکھ ہوا اور میرا دل یہ ماننے کو تیار نہ ہوا کہ انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے کے باوجود اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا ہو گا اور اپنے ہاتھ خون سے رنگے جانے کے باوجود اسے لیڈی میکبتھ کی طرح خون کی بو اور اپنے ہاتھوں پر لہودکھائی نہ دیتا ہو، میں سوچتی تھی کہ انسان اتنا بے حس اور سفاک کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کی جان لے لے اور اسے کوئی پشیمانی نہ ہو۔ مگر پچھلے کئی دنوں سے شاہ زیب قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی کو دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ سمرسٹ ماہم کی کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار میرے سامنے ہے۔ ایک ماں کے اکلوتے جوان بیٹے شاہ زیب کو سر عام گولیاں مار کر قتل کرنے کے ملزم شاہ رخ جتوئی کے چہرے پر نہ تو پشیمانی کی کوئی ذرا سی بھی جھلک دکھائی دی اور نہ ہی اسکی آنکھوں میں پچھتاوا نظر آیا بلکہ اپنے باپ کی بے انتہا دولت پر غرور کی حد تک اعتماد اور ایک طنزیہ مسکراہٹ ہمیشہ شاہ رخ جتوئی کے چہرے پر نظر آئی، میں دیکھتی رہتی کہ کس طرح شاہ رخ جتوئی عدالت آتے اور جاتے ہوئے نئی جینز اور شرٹ پہنے بڑے اطمینان سے پولیس کی گاڑی سے اترتا ہے اور نہایت حقارت سے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھتا ہے جو اسے قاتل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں طاقت اور دولت کو اب سب کچھ مان لیا گیا ہے اور یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ سرمایہ دار اور دولتمند ہر قاعدے اور قانون سے بالاتر ہیں۔ اسی سوچ کی عکاسی مجھے شاہ زیب قتل کیس میں شروع سے آخر تک نظر آئی ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے شاہ رخ جتوئی کو گرفتاری سے بچانے کیلئے کروڑوں روپے بہائے گئے ، پولیس، انتظامیہ اور سوشل میڈیا پر بے انتہا پیسہ خرچ کیا گیا۔ 21 سال کا ہونے کے باوجود میڈیکل بورڈ نے یہ بھی لکھ دیا کہ شاہ رخ جتوئی تو ابھی نابالغ ہے اور اٹھارہ سال سے کم عمر ہے، جیل میں بھی شاہ رخ جتوئی کو نہ صرف خدمتگار ملے ہوئے ہیں بلکہ انتظامیہ کی جانب سے ہر طرح کی سہولت بھی مہیا کر دی گئی ہے۔ ہے کوئی رپورٹر ، کوئی صحافی جو جیل میں جا کر دیکھے اور ساری قوم کو بتائے کہ کس طرح ایک بڑے دولت مند باپ کا بیٹا ، شاہ رخ جتوئی انتہائی وی آئی پی انداز میں جیل کے اندر تمام سہولتوں کے مزے لوٹ رہا ہے۔ کس طرح شاہ رخ جتوئی کو ائرپورٹ سے ایف آئی اے اور امیگریشن کے آفیسرز نے دبئی فرار کروایا اور جب عدالت نے پوچھا کہ اتنی ساری ایجنسیوں کے ائر پورٹ پر ہوتے ہوئے شاہ رخ کیسے فرار ہو گیا تو پہلے کہا گیا کہ شاید وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر بیرون ملک چلا گیا ہے پھر اس جرم کا الزام بھی ایک غریب پورٹر طٰحہ کے سر ڈال دیا گیا۔سوچئے کیا ایک پورٹر تمام ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کسی کو بیرون ملک بھیج سکتا ہے مگر یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے، یہاں قتل کو خودکشی اور مقتول کو قاتل قرار دینا بایئں ہاتھ کا کام ہے، بس کچھ رقم خرچ کرنی ہو گی، کیا عام آدمی کیلئے اس ملک میں انصاف کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں۔ کیا قانون صرف سرمایہ داروں اور بااثر خاندان کے بیٹوں کے تحفظ کیلئے بنا ہے ؟
جس بے شرمی اورڈھٹائی سے سفید کو سیاہ اور قاتل کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں اس کی مثال شاید آج کی دنیا میں کسی اور ملک میں نہیں مل سکے گی ، آج پاکستان میں انصاف بک رہا ہے اور اتنے مہنگے داموں کہ ، کوئی عام آدمی انصاف حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، جب شاہ زیب کا باپ جو خود ایک ڈی ایس پی ہے اسے انصاف دلانے کیلئے سوشل میڈیا اور پوری سول سوسائٹی کو زور لگنا پڑا تب جا کے ملزم صرف گرفتار ہو سکا ہے۔ تو سوچئے عام لوگوں کی زندگیاں کتنی سستی اور بے معنی ہیں اس ملک میں۔

ای پیپر دی نیشن