ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک جلیل القدر علمی و ادبی خان خانوادے سے تھا۔ آپ کے والد معقولات و منقولات میں خاص ملکہ کے حامل تھے۔ آپ کے نانا مولانا فیض عالم ہزاروی بھی نمایاں علمی مقام کے حامل تھے۔ ان کے علمی آثار میں ’نبراس الصالحین‘ اور ’نبراس البررہ‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کی بعض نادر تحقیقات میں چھوٹی بستیوں میں جمعہ کے عدم جواز کا فتویٰ بھی ہے جس کی تعریف علامہ انور شاہ کاشمیری نے درج ذیل الفاظ میں کی : واول من استدل بہ المولوی فیض عالم الہزاروی
قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ان کے بڑے بھائی مولانا قاضی صدر الدین سے ہوا۔ پھر دو سال بھوئی گاڑ ،کیمبل پور (اٹک) میں مولانا عبدالحئی کے مدرسہ میں زیر تعلیم رہے۔ 1933ء میں ایک سال موضع انہی میں مولانا غلام رسول سے مستفید ہوئے۔ آپ نے 1934ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور سے موقوف علیہ کیا۔ جبکہ دورہ حدیث شریف کے لیے جامعہ امینیہ دہلی تشریف لے گئے اور مولانا مفتی کفایت اللہ اور دیگر اساطین علم سے کتب حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔ آپ نے فراغت کے بعد 1936ء میں موضع درویش ہری پور سے تدریس کا آغاز کیا۔ آپ کو حدیث شریف اور فقہ سے خصوصی شغف تھا، اس کے علاوہ مذاہب باطلہ بالخصوص انگریز کے خود کاشتہ پودے فتنہ قادیانیت کے ابطال سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ قاضی شمس الدین جامعہ فتحیہ میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی مولانا پیر مہر علی شاہ سے بیعت ہو گئے تھے اس وقت تعلیمی مصروفیات تحصیل مقامات میں حائل رہیں۔ 1357ھ میں پیر مہر علی شاہ کے پردہ فرمانے کے بعد 1360ھ میں مولانا عبداللہ لدھیانوی خانقاہ ،سراجیہ کندیاں شریف سے بیعت ہوئے اور مجاز طریقت قرار پائے۔
آپ نے ’مہر درخشاں‘ کے نام سے اپنے پہلے مرشد پیر مہر علی شاہ سوانح بھی لکھی۔آپ نے تصنیفی و تالیفی میدان میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں جن میں سے چند نام درج ذیل ہیں:
1۔داڑھی کی اسلامی حیثیت
2۔سیرت خلفائے (مکتبہ احرار اسلام ملتان)
3۔مہر درخشاں
4۔مسئلہ رویت ہلال
5۔بے باک محاسبہ
6۔مصنوعی آواز کی کہانی
7۔ آواز حق
8۔عیسائی تبلیغ کے خفیہ گوشے
مولانا قاضی شمس الدین خلق خدا کی ظاہری و باطنی تربیت میں بھرپور زندگی گزار کر 3 جون 1991ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔