ہنی مون پریڈ ختم ۔صدر ٹرمپ کی مقبولیت ’’47 فیصد‘‘ سے ’’43 فیصد‘‘ پر آگئی ۔خیر گراف میں اتنی کمی کوئی بڑی پریشانی نہیں مگر تجزیہ کی متقاضی ضرور ہے کہ اتنی کم مدت میں مقبولیت میں کیوں کمی آئی ہے؟؟پہلے دور کی طر ح غیر یقینی ۔عدم اعتماد ی برقرار ہے۔ ٹیرف ‘دھمکیوں۔’’غزہ‘‘ سے فلسطینیوں کے جبری انخلاء کی باتوںنے مایوسی بڑھا دی ہے۔ ’’گولڈ کارڈ ‘‘ واقعی ’’ٹرمپ ‘‘کا کامیاب ترُپ کا پتہ تھا ۔اگر پے در پے غیر متوقع اعلانات نہ ہوتے تو دُنیا کے امیر ترین اشخاص کی کثیر تعداد نے ابھی تک امریکہ کو مالا مال کر دیا ہونا تھا ۔اب ’’6 ماہ‘‘ تک بیرونی دُنیا انتظار کے موڈ میں ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی لانے کی ’’ذِمہ داری‘‘ بھی دستبردار ہوگئی ہے۔ افراتفری کی کیفیت ہے۔
15 ماہ کی خونی جنگ۔سفا کانہ بمباری کے بعد بالاآخر امن معاہدہ ہو گیا عارضی یا پکا۔ یقینا اس کا تعین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد کا وقت کر ے گا۔شک ہے کہ جنگ مکمل رُک پائے گی۔ بہت ممکن ہے مختصر وقفہ پڑجائے پر پلان کی تکمیل دیکھیں تو ؟؟؟ (اقتباس ازمطبوعہ کالم ’’کشمیر اور فلسطین ‘‘24 جنوری2025 )۔
رمضان المبارک کا مہینہ بھی اختتام پذیر ہو گیا ہے مگر بمباری ۔تشدد۔قتل و غارت گری کا اختتام نہیں ہو رہا ہر گزرتے لمحہ سفاکیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر ملک میں امن پسند شہری بطور احتجاج سڑکوں پر ہیں پہلے بھی تھے ۔احتجاجی مظاہروں کی تعداد ۔ شدت بھی خونی درندوں کا غصہ ۔نفرت ختم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔بظاہر یہ لکھنا مشکل معلوم ہو رہا ہے کہ دنیا امن کی طرف جائے گی کیونکہ بیانات سے تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہو تیں اقدامات جو آجکل اُٹھائے جا رہے ہیں وہ باہم متصادم کرنے کے اشارے ہیں ۔نفاق۔ تفریق کی علامتیں ہیں۔ دنیا کو مختلف ’’بلاکس‘‘ میں تقسیم کرنے کا عمل بھلا کیسے امن کا نفاذکرنے میں معاونت کر سکتا ہے؟؟ پاکستان کے حالات بھی قابو میں نہیں آرہے ۔ بدترین دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ’’معصوم شہادتوں‘‘ کی تعداد بڑھ رہی ہو تو دل میں کیسے سکون۔ترقی کی باتیں قیام کرینگی؟؟ بے گناہوں کا نا حق قتل ۔کیا کوئی ’’مسلمان‘‘ ایسی گھنائونی حرکات کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ پاکستان شہداء کی سر زمین ہے۔
پاکستان عالمی دہشت گردی انڈیکس میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔’’آئی ای پی رپورٹ‘‘ کے مندرجات کے مطابق 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ’’45 فیصد‘‘ اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے بڑھتے گراف کی لہر واقعی خطرناک حد ہے ۔بقول’’ انسٹی ٹیوٹ‘‘ طالبان حکومت کے بعد پاکستان میں دہشت گردی بڑھی۔ تجزیہ ۔ رپورٹ میں کوئی شبہ نہیں پہلے ہم یہ ذِمہ داری (دہائی قبل) انڈیا پر ڈالتے تھے ۔اب افغانستان پر۔ تاریخی پس منظر اور شواہد کے لحاظ سے دونوں درست تھے ۔اور لمحہ موجود میں بھی دونوں ذِمہ دار ہیں۔تب کے معروضی حقائق یہی ظاہر کرتے تھے۔ ہمارے اقدامات میںکہاں سقم ہیں اِس طرف آج نہیں تو کل ضرور آنا پڑے گا۔
ایک معروف ادارے کی رپورٹ اور ریاستی حقائق غلط نہیں ہو سکتے۔درست تھا ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا کہ امن تبھی قائم ہو گا جب امریکہ اینے ہتھیار افغانستان سے واپس لے گا۔یقینا پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
سوال یہ ہے کہ امن کا قیام ہتھیاروں کی واپسی سے مشروط کرنا کِس حد تک درست سوچ ہو سکتی ہے۔یقینا حکومتیں سچ۔جھوٹ کو جاننے میں بہتر درجہ پر ہوتی ہیں۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کیسے واپس لے گا؟؟ طریقہ کا ر کیا ہوگا؟؟خدشہ ہے کہ ’’خطہ‘‘ دوبارہ جنگ کا مرکز نہ بن جائے۔تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کِسی کو بھی قدموں تلے نہ کُچلو اور نہ کِسی کو اپنے سر پر اتنا بٹھا لو کہ اُتارنا مشکل ہو جائے۔ دہشت گردی کے معاملہ میں ہماری جان حلق تک آچکی ہے۔پاکستان اور امریکہ کے مفادات اِس ضمن میں مشترکہ سہی پر مشترکہ مفادات کے نتائج’’ اربوں ڈالرز‘‘ کا نقصان۔ہزاروں معصوم جانیں۔ جری۔ بہادر فوجی شہید۔سلسلہ ہنوز جاری۔ امریکی تعریف پر خوش ہونے کی بجائے’’دُعا کی جانی چاہیے کہ ہم پر کہیں لیبل نہ لگ جائے ۔رواں یااگلا ہفتہ اس لحاظ سے انتہائی خوفناک ہے کہ پاکستانی شہریوں پر امریکہ کا داخلہ مکمل یا جزوی بند ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
روس،فرانس اوریورپ کے لیے خطرہ ہے۔ فرانس کے صدر کے بیان پر روس کا شدید ردعمل ۔عالمی جنگ چھڑنے کی بات کے علاوہ کہا کہ کچھ لوگ ’’نپولین دور‘‘ میں جانا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ نپولین کی روس مخالف مہم کا انجام بھول گئے ہیں۔
’’صدر ٹرمپ‘‘ انتخابی مہم سے تھوڑا مختلف فارم میں نظر آرہے ہیں۔ امریکی مفادات کے معاملہ میں فی الوقت ہلکی سی لچک دکھانے کے موڈ میں نہیں۔ ’’غزہ سے یوکرائن ‘‘ تمام امور امریکی خواہش کے مطابق حل کرنے کی پلاننگ اتنی کمزور نہیں کہ محض بڑقرار دیکر رد کر دیں۔
نظر یہی آتا ہے کہ پوری دنیا کو امن گاہ بنانے کی آواز اپنی جگہ مگر سب سے بڑا محرک اپنی پسند کے مقامات کو تجارتی نقطہ نظر سے بہترین سہولتوں سے آراستہ سیاحت گاہوں ۔ ہوٹلز میں بدلنا ہے۔ اس مقصد کے لیے صدر ٹرمپ اپنی ریاستی طاقت کو استعمال کرنے میں زیرہ برابر بھی دیر نہیں لگانے والا۔ ہمارے لیے موجودہ وقت واقعی نازک ہو گیا ہے۔ ایک طرف دوستوں کے روپ میں جانی دشمن۔دوسری طرف ازلی۔ ابدی چالاک دشمن۔ دُکھ توسبھی کو ہے کہ دہائیوں سے چلے آرہے ’’ اتحادی‘‘ نے تعریف پر ٹرخا دیا۔ ہماری قربانیاں۔ شہداء کی تعداد۔ کچھ نہیں دیکھا ا ِ س مرتبہ بھی۔
٭…٭…٭