اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں- علاقائی تنازعات کے باعث دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے- آزادی سے لے کر اب تک دونوں ملکوں کے مابین چار جنگیں ہو چکی ہیں جبکہ سرحدی جھڑپیں آئے روز کا معمول ہیں- ان جنگوں اور سرحدی کشیدگی کا اصل محرک تحریک آزادی کشمیر ہے- اگر چہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن سب بیکار اور بے سود ثابت ہوئیں-
6 ستمبر 1965ء عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابل فخر دن ہے- جب بھارت نے کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی سازوسامان کے ساتھ اپنے سے چھوٹے ہمسایہ ملک پاکستان پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا- 1979ء میں ایئر مارشل (ر) اصغر خاں کی انگلش میں چھپنے والی کتاب ’’انڈو پاک وار 1965ء ‘‘ میں اس جنگ سے متعلق اہم معلومات موجود ہیں- یہ جنگ 17 روز تک جاری رہی جس میں پاک فوج کا پلہ بھاری رہا اور دشمن کو خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ ہندوستان کے بہت سے اہم علاقے بھی پاک فوج کے قبضے میں آ گئے-
بھارت کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی پہلی جنگ 1948ء میں ہوئی- جس کے بعد 6 ستمبر 1965ء میں دوسری جبکہ تیسری جنگ 1971ء میں لڑی گئی- چوتھی جنگ کا آغاز ’’کارگل‘‘ کے محاذ پر ہوا- جنگی تاریخ دیکھیں تو جنگیں ہمیشہ تباہی لاتی ہیں اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملتا- اس وقت دونوں ملکوں کے مابین پھر محاذ گرم ہیاور پہلگام واقعے کی آڑ میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی ہے- اس دھمکی کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا پانی بند کر دیا جائے- جبکہ پاکستان نے پانی کے معاملے کو پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی لائف لائن قرار دیا ہے- وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے صاف صاف کہا ہے، پاکستان کا پانی بند کیا گیا تو ہم اسے اعلان جنگ تصور کریں گے-
اب خطے میں کشیدگی ہے اور دونوں جانب کی مسلح افواج کسی بھی ممکنہ کارروائی کے لیے بارڈر پر مستعد اور تیار کھڑی ہیں- پاکستان کی بری فوج نے وسیع پیمانے پر جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں- آرمی چیف سید عاصم منیر جنگی مشقوں کے مقامات کا دورہ کر رہے ہیں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی اس جنگی صورت حال سے پوری دنیا کی توجہ خطے کے دونوں ممالک پر مرکوز ہو گئی ہے- وزیر خارجہ اور ڈپٹی پرائم منسٹر اسحاق ڈار حالات کی سنگینی سے دنیا کو ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے آگاہی فراہم کر رہے ہیں- امریکی وزیرخارجہ بھی پاکستانی اور بھارتی اعلیٰ حکام سے رابطے میں ہیں- گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں-
دیکھا جایتو بھارت، پاکستان کا پڑوسی ملک ہے- بھارت کے علاوہ چین، ایران اور افغانستان سے بھی پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں-پاکستان اور چین کا بارڈر ایریا 500 کلومیٹر پر محیط ہے- ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر جبکہ افغانستان کے ساتھ 2400 کلومیٹر کا بارڈر ایریا ہے- بھات کے ساتھ بھی پاکستان کی طویل ترین سرحد ہے- یہ طوالت 3000 کلومیٹر پر محیط ہے- یوں بھارت کے ساتھ پاکستان کی سرحد دیگر پڑوسی ملکوں سے زیادہ طویل ہے-
یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت دنیا کے ایسے ملک ہیں جن کی سرحدیں مختلف نوعیت کی حامل ہیں اورپانچ سرحدیں مختلف ناموں سے موسوم ہیں اْن کی الگ الگ شناخت اور پہچان ہے- ایل او سی یعنی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پاکستان اور بھارت کے مشہور بارڈرز ہیں- 1948ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جنگ کے نتیجے میں سیز فائر لائن (CFL)عمل میں آئی- جس نے 1971کی پاک بھارت جنگ کے بعد جولائی 1972ء میں لائن آف کنٹرول کی شکل اختیار کر لی-
لائن آف کنٹرول پاکستان اور بھارت کے مابین جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے- اس کی مجموعی لمبائی 740 کلومیٹر ہے- کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جس کے 55 فیصد حصے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے- جبکہ قریباً 35 فیصد حصہ آزاد جموں و کشمیر کی صورت میں پاکستان کے پاس ہے- 15 فیصد حصہ چین کی دسترس میں ہے- چین اور بھارت کے مابین کشمیر کو لائن آف کنٹرول تقسیم کرتی ہے- پاکستانی کشمیر میں مظفر آباد، راولا کوٹ، کوٹلی ، بھمبر، باغ اور نیلم ویلی شامل ہیں- جبکہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں اڑی، کپواڑہ، بارہ مولا، پونچھ اور راجوڑی وغیرہ واقع ہیں- چین میں کشمیر کا جو حصہ شامل ہے وہ قریباً 44 ہزار مربع کلومیٹرپر محیط ہے- یہ علاقہ چین کے صوبہ چنگ جیانگ کا حصہ ہے جو تبت سے متصل ہے جبکہ بھارت ان علاقوں کو لداخ کا حصہ قرار دیتا ہے- لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہمیشہ ہی سے رہی ہے-
ورکنگ باؤنڈری جو 200 کلومیٹر طویل بارڈر ہے- پاکستان کے شہروں سیالکوٹ، شکر گڑھ، نارووال، ظفر وال ، پسرور اور گجرات کے درمیان واقع ہے- بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے متعدد شہر جیسے جموں، آر ایس پور، آرنیا اور سامبا اسی ورکنگ باؤنڈری کے قریب ہیں- بھارت اسے بین الاقوامی سرحد مانتا ہے- مگر جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اسے بین الاقوامی سرحد کی بجائے ورکنگ باؤنڈری تسلیم کرتاہے- پاکستان نے اس سرحد کو ہمیشہ متنازع مانا ہے – یہاں اکثر کشیدگی رہتی ہے-
پاکستان اور بھارت کے مابین یہ باقاعدہ بین الاقوامی سرحد ہے – اس کی مجموعی لمبائی قریباً 22 سو کلومیٹر ہے- اس بارڈر پر سیالکوٹ، لاہور ، قصور، اوکاڑہ، بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خاں جیسے پنجاب کے شہر جبکہ صوبہ سندھ کیشہر گھوٹکی ، سکھر، سانگھڑ، عمر کوٹ، مٹھی، بدین اور حیدر آباد بھی قابل ذکر ہیں- اسی بارڈر پر بھارتی پنجاب کے شہروں میں امرتسر، فیروزپور اور پٹھانکوٹ کینام آتے ہیں- اور صوبہ راجھستان کے شہر جیلمسیر، بیکانیر، برمہر،شری گنگا نگر اور بھارتی صوبہ گجرات کے متعدد شہر بھوج، ابراسہ، نالیار اور سکیت بھی شامل ہیں- دونوں ملکوں کے مابین واقع سرحد AGPLایکچوئل گرانڈ پوزیشن لائن ہے- جسے دنیا کا سب سے اونچا محاذ جنگ بھی کہا جاتاہے- جو سیاچن گلیشئر پر واقع ہے- یہاں پاکستانی سائیڈ پر سکردو، ہوشے اور کھپلو کے علاقے قابل ذکر ہیں- جبکہ بھارتی سائیڈ پر لداخ، پرت پور اور ساسوسمہ کے علاقے شامل ہیں- کوہ قراقرم میں واقع سیاچن پر درجہ حرارت اکثر -50.Cتک گر جاتا ہے- یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پاکستان اور بھار ت کے مابین کوئی واضح سرحد موجود نہیں- 1948، 1965 اور پھر 1971ء کی جنگوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین 1972ء میں شملہ معاہدے کے تحت کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کو تسلیم کیا گیا- جس میں سیاچن بھی شامل تھا- یہاں اکثر ماحول کشیدہ رہتا ہے اور جھڑپیں معمول کا حصہ ہیں-
پاکستان اور بھارت کے مابین ایک طویل سمندری سرحد بھی ہے- پاکستانی سائیڈ پر کراچی، ٹھٹھہ، بدین اور کیٹی بندر واقع ہیں جبکہ اس سمندری سرحد پر بھارتی شہربھوج، مانڈری، وارک کندلہ کے علاقے شامل ہیں- جب بھی دونوں ملکوں کے مابین تناؤ پیدا ہوتا ہے- یہ سمندری سرحد بھی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے اور سمندری حدود میں بحری فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت کا آغاز ہو جاتا ہے-
پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدہ صورت حال دونوں ملکوں کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے- دونوں ملک ایٹمی قوت ہیں- دور تک مار کرنے والے خطرناک میزائل بھی دونوں ملکوں کے پاس ہیں- جنگ چھڑتی ہے، جیسا کہ حالات سے ظاہر ہو رہا ہے تو اس کے خطے پر بْرے اور دوررس اثرات ہوں گے- دنیا کے بڑے پلیئرپاکستان اور بھارت کے مابین ممکنہ جنگ کو رکوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں-حالات کے پیش نظر پاکستان کی تینوں مسلح افواج مستعد، چوکس اور جنگ کے لیے تیار کھڑی ہیں،جس وقت بھی جی ایچ کیو سے کوئی حکم ملا، پاکستانی افواج ملکی دفاع کے لیے اپنا تارٰیخی کردار ادا کریں گی- فوج کا جذبہ، حوصلہ اور مورال بلند ہے- فوجی جوان منتظر ہیں کہ کب انہیں حکم ملتا ہے اور کب وہ دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے سینہ سپر ہوتے ہیں-