سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی
ہمارے مسائل ہماری سوچ اور سمجھ سے بالا تر ہیں ،ہمارے دماغ اور ہماری سوچ اس قابل نہیں ہے کہ ہمارے جو مسائل ہیں ان کو سمجھیں،اور ان کو سلجھانے کی بات کریں۔اور لگتا یہ ہے کہ ہماری قیادت ہمیں درپیش مسائل اور مشکلات سے بہت چھوٹی رہ گئی ہے۔یہ صرف دن گزارنے والی اور وقت ٹپانے والی لیڈر شپ ہے جس کا کو ئی نظریہ ہے نہ ہی کوئی وڑن ہے۔اور نہ ہی اس قیادت سے مستقبل میں کسی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ایسی بات نہیں ہے کہ ہمیں کبھی اچھی قیادت میسر ہی نہیں تھی ،1950 کی دہائی میں بہترین قیادت میسر تھی لیکن اس کو ابڈوکیٹ کردیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ایوب خان کا دور آیا اور اس کے بعد سے ہم نے دیکھا کہ ہماری قیادت اس کے بعد کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی ،مسائل بڑھتے چلے گئے اور ہماری قیادت کی سمجھ سے بالا تر ہو گئے۔ہم نے جو سلوک اپنے ملک کے ساتھ کیا ہے وہ دیکھنے سے قابل رکھتا ہے ،اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس وقت دنیا کے لیے ایک مسخرہ بن چکے ہیں ،دنیا ہمارے در پے ہے اور ہم ایک دوسرے کے درپے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہو ئے ہیں۔ہمارے ہاں کوئی پیغام نہیں ہے کوئی سوچ نہیں ہے کوئی ربط نہیں ہے ،مسائل کو سلجھانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے ،مذہبی انتہا پسندی ہمارے ہاں رچ بس گئی ہے اور ہم ہمارا بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے تمام معاملات کو مذہب کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اگر ہم دنیا کی قیادت کرنا چاہتے ہیں جو کہ ہمارے برزگوں کا ہمارے لیے خوا ب تھا تو ہمیں ترقی پسند سوچ کی طرف بڑھنا ہو گا دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلیں گے تو ترقی کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔اگر ہمارے ملک میں صیح جمہوری قیادت ہو تی اور بہتر انداز میں کام کرتی توآج ہم بطور ملک کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوتے اور فلسطین اور کشمیر کے عوام کی بھی زیادہ بہتر انداز میں مدد کرسکتے۔ہم کشمیر اور فلسطین تو دور کی بات پارہ چنار میں بھی امن قائم کروانے میں ناکام ہیں اور ایک دوسرے پر الزام لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔یہ ہمارا رویہ ہی بن گیا ہے جو کہ نہایت ہی افسوس ناک امر ہے۔ہم فلسطین کے مسئلہ کو بھی کسی اور ہی شکل سے دیکھتے ہیں اور کیونکہ ہماری سوچ ہی کمزور سوچ ہے اگر اس مسئلہ کو مضبوط جمہوری اقدار کے ساتھ دیکھا جاتا اور ایک انسانی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا تو بہتر نتائج نکل سکتے تھے لیکن شوم قسمت ہے کہ ہم اس مسئلہ کا حل نہیں نکال سکے۔جمہوریت کا جو ہمارے ہاں حال ہے وہ سب کے سامنے ہی ہے ،جس انداز میں الیکشن ہو ئے ہیں اور اب جس انداز میں اسمبلی چلائی جارہی ہے وہ ایک مذاق بنا ہوا ہے۔ہمیں اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے ،لیکن موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہی ہو تا ہے کیونکہ اس سے بہتر تھا کہ نگران حکومت ہی ملک میں قائم رہتی اور ملک کو چلاتی۔اگر ایسا ہو جاتا تو موجودہ سیاسی وبال شائد نظر نہیں آنا تھا اور شائد ملک کی صورتحال بہتر ہو تی سیاسی ہیجان کم ہو تا اور معاملات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہوتے۔لیکن بہر حال اب جو ہو گیا ہے وہ تو گیا ہے اس کا کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔موجودہ صورتحال میں سے ہی بہتری کی گنجائش نکالنے کی ضرورت ہے۔ایک شخص کے اوپر 180,180مقدمات قائم کرنا کسی سلطنت کی کاروائی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ایسے اقدامات کرکے پہلے سے ہی اقتصادی بحران کا شکار ملک کو مزید مشکلات کا شکار کیا جا رہا ہے کیونکہ ایسے اقدامات کے باعث انسانی حقوق کی صورتحال پر سوال اٹھ رہے ہیں اور معاشی نقصان کا بھی اندیشہ ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر اتنے مقدمات کا قیام زیادتی ہے اور مضحکہ خیز پیش رفت ہے۔ہمارا پڑوسی ملک اور ہم اکھٹے ہی آزاد ہو ئے تھے اور آج وہ کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور دوسری جانب ہم بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔نہ تو ان کی بیورو کریسی میں کوئی الت ہے اور نہ ہی ان کے سیاست دانوں میں کوئی زیادہ فرق ہے لیکن لیکن جو کھیل ہم نے رچایا ہوا ہے اس کھیل نے تو ہماری تباہی ہی پھیر دی ہے۔ہمارے ہاں جو غلط فیصلے لیے گئے ہیں ان کا نقصان آج تک اٹھا رہے ہیں۔نیشنلائزیشن کی پالیسی کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہو ئے ہیں۔کوئی بھی ملک چھوٹایا بڑا نہیں ہوا کرتا ہے کسی بھی ملک کی عزت اس کی آبادی یا اس کے رقبے سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی معیشت اور اس کے کردار سے ہو تی ہے ،اس کے نظام سے ہوتی ہے۔چھوٹے چھوٹے ممالک بھی دنیا پر چھائے ہو ئے ہوتے ہیں اور رقبے یا آبادی میں بڑے ملک بھی دنیا کی نظرمیں حقیر ہو جاتے ہیں۔ہم تو وہ لوگ ہیں جو کہ انٹر نیٹ کو اپنے لوگوں تک درست طور پر نہیں پہنچاسکے ہیں ،سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک ہے ،لیکن یہ دنیا کا بہترین ملک ہے ،ہم کیو ں اس جیسا ملک نہیں بن سکے ؟ یہ سوال اہم ہے جو کہ ہمیں اپنے اکابرین سے کرنا چاہیے۔ہمارا شمار کئی لحاذ سے ایک بڑے ملک کے طور پر کیا جاتاہے۔ہماری سوچ بھی بڑی تھی ہمارے خواب بھی بڑے تھے لیکن ہم ایک بڑا ملک بن نہیں سکے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لیڈر چھوٹے ہو تے چلے گئے۔اور جتنے لیڈر چھوٹے ہو تے چلے گئے اتنے ہی مسائل بڑھتے چلے گئے۔اب ان لیڈران کے ساتھ مسائل کا حل مشکل ہی نظر آتا ہے لیکن اللہ کرے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور ہم ان مسائل سے نکل کر ایک قوم بن سکیں۔