اگر ملکی حالات کی طرف نظر دوڑائیں تو دل کرتا ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند ہی رکھیں کیونکہ ہرسُو حالات اتنے دِگرگوں ہیں کہ دیکھتے اور سنتے ہی دل ڈوب جاتا ہے۔ پورے ملک میں دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے۔ آپ دنیا کا کوئی جرم کرلو اِس ملک میں اُس کو دبایا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے احتساب کرنا ہوتا ہے سب سے زیادہ ہاتھ وہ مارتے ہیں۔ ان کو پنجابی میں ’’تھامو‘‘ کہتے ہیں جو چوروں، فراڈیوں، ڈکیتوں اور رسہّ گیروں کا مال بھی چھین لیتے ہیں۔ ان احتسابیوں کی حیثیت بہت اونچی اور زندگی انتہائی پُرتعیش ہے۔ بلیک میلنگ، تشدد، جزا اور سزا اِن کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا یہ جونک کی طرح سب کا خون چوستے ہیں۔ چند دن قبل جرمن ٹی وی ’’DW‘‘ دِکھا رہا تھا کہ جرمنی میں 2021ء میں زبردست سیلاب آیا۔ ترقی یافتہ اور تمام وسائل پر قابو ہونے کے باوجود بستیوں کی بستیاں بہہ گئیں۔ 200 کے قریب انسان موت کی آغوش میں چلے گئے۔ سیلاب کے بعد ہر طرف تباہی، بربادی، کیچڑ، گند اور ٹوٹا ہوا سامان بکھرا ہوا تھا۔ تمام راستے بلاک تھے لیکن اسکے باوجود حکومتی کارندوں نے اس چیلنج کو قومی فرض سمجھ کرنبھایا اور کسی کو بھوکا نہیں مرنے دیا۔ اسی دوران انٹرنیٹ پر ان قصبوں کی حالت زار بیان کی گئی۔ ہزارہا اعزازی والنٹیر اپنی مدد آپ کے تحت وہاں پہنچے۔ سارا ٹوٹا ہوا سامان ایک طرف کیا، راستے بنائے اور اُن قصبوں کی حالت کو بہتر بنایا۔ کسی والنٹیر نے کسی رقم، کھانے اور بستر کا مطالبہ نہیں کیا یہ ہوتی ہیں قومیں۔ ہمارے یہاں کسی بس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو زخمیوں کا نہ کوئی پرس ملتا ہے، نہ موبائل ملتا ہے اور نہ کوئی دیگر سونے کی چیزیں۔یورپ اور امریکہ میں کلائمنٹچینج کی وجہ سے ہر روز نئی نئی مصیبتیں برپا ہو رہی ہیں۔ ہماری نظر میں یہ سب کچھ مسلم دنیا کی زندگی اجیرن بنانے، اُن کی بے بسی اور اُن پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ سے ہے۔
مسلمان ممالک کے سائنسی اور فوجی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یورپ اور امریکہ نے لیبیا، شام، عراق اور یمن کی کوئی سڑک، بلڈنگ، سکول اور ہسپتال سالم رہنے نہیں دیا۔آج ان ممالک کے مغرور مسلمان اور ان کے منہ زور حاکم عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ قدرتی وسائل کی آمدن کو عیش و عشرت میں خرچ کرنے کے علاوہ بلڈنگز، ڈالر، پائونڈ اور سونے کے ڈھیر لگاتے رہے۔ دشمنوں نے نہ ان کی صنعت چھوڑی اور نہ ان کی زراعت۔ مسلمان تو بس عمل کو چھوڑ کر دعائوں اور بددعائوں میں لگے رہے۔بہرحال قدرت کا اپنا نظامِ عدل ہے اور وہ بھی ظلم، زیادتی، توہین، بھوک اور ننگ ایک حد تک برداشت کر سکتی ہے اور اسکے بعد قدرتی آفات کو حکم ہوتا ہے کہ انکی ترقی کا غرور نکالو۔ پھر جنگل کی آگ، گلیشیر، زلزلے اور کووڈ19 جیسی بیماریاں حرکت میں آتی ہیں کیونکہ قدرت بھی اس قدر ظلم و ستم برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یوں قدرت کے جوش نے یورپ اور امریکہ کو جلانے کا عمل شروع کیا۔ ہزاروں لاکھوں ہیکٹر جنگل جل رہے ہیں اور کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی۔ دوسری طرف گلیشیر پگھل رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب سارا یورپ پانی میں تیرتا ہوا نظر آئیگا۔دریں اثناء مسلم دنیا کی اشرافیہ اپنی دولت لیکر یورپی ملکوں میں جا رہے ہیں اور اپنے آپ کو یورپی اقوام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ جلد یورپ کی چھپی ہوئی مسلم دشمنی باہر آئے گی اور یہ ان لوگوں کی قومیتیں ختم کر کے انکو واپس بھیجیں گے۔ بڑے پیمانے پر لسانی فسادات کروائے جائیں گے،قتل و غارت ہوگی اور پھر یہ لوگ اپنے ملکوں کو بھاگیں گے۔یورپ کا دوہرا معیار دیکھیں ہندوستان برما میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور یورپی ممالک مسلمانوں کی بربادی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ روس کی یوکرین پر چڑھائی پر پورا یورپ تڑپ رہا ہے اور کھلے بازوئوں سے اُنکی رہائش اور خوراک کا بندوبست کر رہا ہے ۔