ایک امہ کے لوگوں میں قومیتوں کو ابھار کر اسلام کے نظام زندگی کی حیثیت اور مسلم امہ کے اتحاد میں شکاف ڈالے گئے اور اس مقصد کے لیے مسلمان ہی استعمال ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب کو خلافت عثما نیہ کے خلاف حامی مل چکے تھے اور انہیں یہ حمایت حکومت اور فوج کی اعلیٰ ترین سطح پر حاصل تھی۔ اس کے علاوہ کئی عرب بدویوں کی بھی حمایت حاصل تھی جنہوں نے انہیں میداں جنگ میں ریاست کو شکست دینے میں آسانی پیدا کرلی۔ امہ کو فوری طور پر مفلوج بنایا گیا اور خلافت کا خاتمہ عمل میں لایا گیا۔ یہ ایک گہری سازش تھی جو صدیوں سے یہود و نصاریٰ کے اذہان میں پک رہی تھی۔ دیکھا
جائے تو صرف کشمیری ہی تمام تر مشکلات کے باوجود سیاسی اور سفارتی سطح پر جدوجہد نہیں کر رہے بلکہ جب بھی آپ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھیں گے تو دنیا کی طرف سے ان کے ساتھ دوہرا رویہ نظر آئے گا۔ مسلم اُمہ اپنی سلامتی اور غیر نمائندہ سیاسی نظام اور اقتصادی طور پر بیرونی دنیا پر انحصار کے باعث مشکلات میں گھری ہوئی ہے چار مختلف کیس اس معاملے کو واضح انداز میں وضاحت پیش کر سکتے ہیں۔
پہلا کیس ترک جمہوریہ شمالی قبرض کا ہے جو پندرہ نومبر کو اپنی 16ویں تقریبات منا رہا ہے۔ لیکن ترکی کی مداخلت پر یونانی قبرصیوں نے کامیابی کے ساتھ ترک قبرصی کمیونٹی کا قتل عام کیا۔ تاریخ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قبرص کے جزیرے کے ساتھ نہ صرف مغرب بلکہ مسلم دنیا نے بھی نا انصافی کی ہے۔ مسلم دنیا نے بوسینیا اور کوسوو میں بھی اپنا مجموعی کردار نہیں دکھایا بلکہ اس کے بر عکس انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام اور خواتین کی سربوں کے ہاتھوں بے حرمتی کی اجازت دی۔ آخری کیس چیچنیا ہے جہاں روس چیچن آبادی کی نسل کشی کر رہا ہے اور دنیا نے اس چیز کو اس حد تک ہونے کی اجازت دی کہ روسی فوج نے وحشیانہ طریقے پر لوگوں کو کچل دیا اس پر احتجاج کیلئے مسلم دنیا کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے لیکن مسلم دنیا ہے کہاں ؟ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ریفرنڈم پرزور دینے کی بجائے مشرق تیمور کی مثال پیش کی جاتی۔ اسلامی کانفرنس تنظیم آگے ہی نہیں آئی۔ دیگر مسلم ممالک کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ شام کی حمایت کریں اور شام کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ یہ حقیقت جان لے کہ اسے مزید ترقی کی ضرورت ہے جس کے لیے اسے پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ سرگرم تعاون کے رابطے قائم کرنے چاہیں۔ جس طرح گولان کی پہاڑیاں اسرائیل ۔ شام کی سکیورٹی کے نقطہ نظر اور پالیسیوں کا مرکز ہے اسی طرح کشمیر اور بھارت پاکستان کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب جبکہ اسرائیل بھارت کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات قائم کر رہا ہے یہ ضروری ہے کہ شام اور پاکستان اس محاذ پر مزید قریب آئیں کیونکہ علاقائی سلامتی کے نقطہ نظر سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بتدریج بہت کم فرق رہ جائےگا۔ اگر مسلم دنیا نے مجموعی مفادات کو ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات پر ترجیح نہ دی تو دنیا کے مسلمان مظالم اور استحصال کا آسان نشانہ بنتے رہیں گے۔
”18سال“ سے زائد ہو گئے کالم کو چھپے ہوئے ۔ ”مڈل ایسٹ“ کے حالات سامنے ہیں ۔ ”طاقتوروں“ کے چند جذباتی فیصلے پوری دنیا کو ایک ہولناک جنگ کے دہانے پر لا چکے ہیں ۔ سوچ ہے ”اسد خاندان“ کی شام میں دوبارہ قدم جمانے کے امکان کو رد کرنا آسان نہیں ۔ ایران اور روس اپنی شکست کو زیادہ دیر قائم رکھنے میں دیر نہیں لگانے والے۔ عصر نو میں معاشی حالت فتح یا شکست کا تعین کرتی ہے۔ ”20سال“ امریکہ نے ایران میں حکومت بدلنے میں ضائع کر دئیے ۔ اب ”امریکہ“ کی توجہ دوسرے ممالک میں حکومتیں بدلنے کی بجائے اپنی سوچ کو بدلنے کی طرف ہونی چاہیے جو کہ اُمید کی جارہی ہے ۔ ایران کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ موجودہ حالات کِس قسم کی کاروائیوں کے نتائج ہیں ۔ لازم ہے کہ اپنی طاقت وسائل کو مضبوط کرنے پر توجہ دی جائے بلکہ دستیاب قوت کو محفوظ رکھنے کی تدابیر اشد تقاضا ہیں۔ امن اور بات چیت کے راستے زیادہ آسان اور محفوظ ہیں بہ نسبت درآمد ۔ برآمد کے ۔ انقلاب کی عمر اب ”50سال“ ہو چکی ہے نقصانات ۔ فوائد سامنے ہیں۔
”نیا سال“
کیسی خوشی کاہے کی مبارک باد ۔ نیا سال اس حال میں کہ یمن ۔غزا۔ کشمیر اور عراق میں مسلمان خون بہہ رہا ہے ۔ اپنے خود ساختہ آقاوں کی تقلید میں نیا سال منانا ہمارا فرض ہے ۔ کیا ہوا کہ ہزاروں” فلسطینی “ ناحق دنیا سے رخصت کر دئیے گئے ۔ لاکھوں بے گھر ہو گئے ۔ ہزاروں بچے اپنے ماں باپ سے جبراًجدا کر دئیے گئے ۔ ہزاروں لوگ معذور ہو گئے ۔ لاکھوں بھوک ۔ پیاس میں مبتلا زندگی کے کچھ دن گزارنے پر مجبور کر دئیے گئے ۔ کیا فرق پڑتا ہے ہم تو محفوظ ہیں ۔ہم تو مضبوط گھروں میں عیش کر رہے ہیں ۔
نیا سال منانا ہمارا فرض ہے۔کیا ہوا” 77سالوں “سے ”کشمیری“ اپنی دھرتی کے مالک مگر اپنی مرضی سے ایک دن بھی آزاد گزار نہیں سکتے ۔ مقبوضہ وادی دنیا کی سب سے بڑی جھیل مگر انسانی آزادی کے عالم برداروں کی نظر کرم اس طرف جانے سے معذور ہے ۔ مسلہ اُمہ چند روزہ زندگی کی محبت میں اتنا بُری طرح ڈوب چکی ہے کہ خرافات کو اپنے قومی تہواروں کی مانند مناتی ہے ۔
قارئین یقین مانیے میں نے اس مرتبہ نئے سال کے ہر مبارک بادی پیغام کے جواب میں نیا سال مبارک نہیں کہا ۔ کیونکہ گزرے سال مسلم اُمہ اور پاکستان پر بہت بھاری رہے ہیں ۔ سیاسی ۔ معاشی اور سماجی لحاظ سے۔ ویسے بھی ہمارا اسلامی سال محرم سے شروع ہوتا ہے ۔ ہر پیغام کے جواب میں میں نے لوگوں کو خوشیوں کی دعا دی ۔ خوشیاں ہمارے لیے زیادہ ضروری ہیں ۔ کیونکہ ایک آزاد اور خودمختار فرد ہی کفر کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم مکمل طور پر ”دین حنیف “ سے جڑ جائیں ۔ ہم اپنے واحد مالک” رب کریم“ کے ساتھ دفا دار ہو جائیں اور اس کے احکامات اور خاتمہ النیبن ﷺ کی سنت پر چلنا شعار بنا لیں اسی میں ہماری نجات ہے یہی ہماری اصل خوشی ہے۔