امام ِصحافت اور میں

کچھ اعزازات ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی خاص مہربانی سے عطا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اعزاز تو محترم مجید نظامی کی دعوت پر روزنامہ نوائے وقت میں کام کرنا ہے۔ دوسرا انتہائی اوائل عمری میں جسے ’’صحافت میں دودھ کے دانت ‘‘کہنا چاہئے ان کی طرف سے شفٹ انچارج بنایا جانا اور تیسرا اعزاز 18 برس تک مسلسل ان کے زیر سایہ انچارج کے طور پر کام کرنا ہے۔ غالباً میں وہ صحافی ہوں جس نے انچارج کے طور پر ان کے ساتھ طویل ترین عرصہ گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ جب محترم مجید نظامی نے بلا کر شفٹ انچارج بنائے جانے کی اطلاع دی تو میری عمر 26 برس سے کچھ ہی زیادہ تھی میں نے جواب میں انتہائی احترام سے عرض کیا کہ میں تو مقابلے کے امتحان کا سوچ رہا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں ایک دم سے انچارج بنائے جانے پر پریشان بھی تھا کیونکہ شفٹ پر سب لوگ عمر اور تجربے میں مجھ سے بڑے تھے۔ اس پر وہ مسکرائے اور فرمایا کہ لگتا ہے آپ ڈر رہے ہیں، میری ٹیم کا حصہ ہو کر ڈر کیسا؟اسی روز احساس ہوا کہ ’’نوائے وقت خاندان‘‘ کا حصہ بن کر ڈر کو خیر باد کہنا بہت ضروری ہوتا ہے اور آگے چل کر ایک انچارج کی حیثیت سے محترم مجید نظامی کی قیادت میں اس کا عملی طور پر بار بار احساس ہوا۔ محترم مجید نظامی سے بہت کچھ سیکھا بلکہ مسلسل اور روزانہ کی بنیاد پر سیکھا۔ وہ زیادہ تر سنجیدہ رہتے تھے لیکن ہم سب جانتے تھے کہ متانت بھرے چہرے کے ساتھ وہ انتہائی شفیق استاد اور نرم دِل انسان بھی ہیں۔ ایک بار کسی بات پر میرے مْنہ سے نکل گیا کہ آپ ادارے کے مالک ہیں تو انہوں نے فوراً ٹوکا اور فرمایا کہ ’’کیا کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ میں مالک کی طرح ہوں؟ ہم سب ایک ٹیم اور خاندان ہیں، میں اس ٹیم کا ایڈیٹر اور بزرگ ہوں۔ برائے مہربانی آئندہ مجھے یہ خطاب نہ دیجیئے گا۔ اس روز مجھے صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ میں گھر سے دفتر نہیں بلکہ گھر ہی میں آیا ہوا ہوں اور یہ احساس آج بھی موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس کے ساتھ مجھے اس روز صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ نوائے وقت گروپ واقعی ایک خاندان ہے۔
محترم مجید نظامی عظیم صحافی تھے، انسان یا سرپرست… میں آج بھی اس کا فیصلہ نہیں کر پایا کیونکہ وہ سب کچھ ہی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کسی صحافی پر کوئی آفت آتی تو اس مشکل وقت میں جب اپنے بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ محترم نظامی صاحب کا در اور دل ہمیشہ کھلا رہتا۔ وہ صحافی چاہے نوائے وقت میں کام کر رہا ہوتا یا کہیں اور… مصیبت میں وہ سب کے کام آتے تھے اور ایسا آتے تھے کہ سب حیران رہ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار مرحوم رفیق ڈوگر کہیں ’’اِدھر اْدھر‘‘ ہو گئے تو ان کے فرزند فوراً مجید نظامی صاحب کے پاس آئے اور نظامی صاحب اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھے جب تک ڈوگر صاحب صحیح سلامت گھر نہیں لوٹ آئے۔
محترم نظامی صاحب کے زِیر سایہ کام کے دوران بہت سے دوسرے اداروں سے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ تقریباً تمام اداروں سے کام کرنے کی دعوتیں ملیں مگر دل نہیں مانا اور صرف یہ سوچ کر نہیں مانا کہ وہاں ہو سکتا ہے بہت کچھ ہو، ایسے پیارے قابل احترام دوست بھی ہوں جو روزنامہ نوائے وقت سے ان اداروں میں جا بسے تھے لیکن وہاں محترم نظامی صاحب جیسا عالی شان اْستاد اور امام صحافت تو نہیں ہوگا اور جہاں نظامی صاحب نہیں ہونگے وہاں صحافت کا جسم تو ہو سکتا ہے لیکن روح نہیں۔ اسی طرح ایک آفر کی اطلاع محترم نظامی صاحب تک بھی پہنچی۔ انہوں نے بڑے دوستانہ انداز میں ملنے کیلئے بلایا، چنانچہ حاضر ہوا۔ ان کے ساتھ اس وقت کے جی ایم ایڈمن بھی موجود تھے۔ محترم نظامی صاحب نے بات شروع کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’’کیا آپ کو فلاں ادارے کی جانب سے ایڈیٹر کیلئے آفر آئی ہے۔ میں نے فوراً جواب دیا ’’جی ہاں‘‘۔ انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ کیا آپ جا رہے ہیں؟ اس پر میں نے بغیر کسی توقف کے کہا ’’جی نہیں؟‘ کیونکہ میں پہلے ہی فیصلہ کر چکا تھا کہ اپنی ’’صحافتی فیملی‘‘ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا۔ اس پر محترم نظامی صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور ایک دو باتوں کے بعد میں اجازت لیکر چلا آیا۔
 محترم مجید نظامی بہت ہی اعلیٰ انسان اور اعلیٰ صحافتی صفات کے مالک تھے۔ مایہ ناز صحافی اور کالم نگار عباس اطہر مرحوم کہا کرتے تھے کہ آٹھ، دس گھنٹے کی نوکری ایک طرف اور محترم نظامی صاحب سے 5 منٹ کی بات چیت ایک طرف۔ جب میں خود نوائے وقت نیوز روم کا انچارج بنا تو عباس اطہر صاحب کی بات حرف بحرف سچ معلوم ہوئی۔
عباس اطہر صاحب  سے یاد آیا ایک بار ہم دونوں ملکر کسی خبر کی اشاعت کے بارے میں فیصلہ نہ کر سکے تو اس پر متفق ہو گئے کہ اسے نظامی صاحب کے پاس بھجوا دینا چاہئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ خبر ہمیں نظامی صاحب کی طرف سے دوبارہ موصول ہو گئی کچھ ایڈیٹنگ اور جملوں کے ردوبدل کے ساتھ اس پر ایسی زبردست سرخی جمی ہوئی تھی جس سے وہ نہ صرف قابل اشاعت ہو گئی بلکہ انتہائی دلچسپ بھی بن گئی۔ 
محترم نظامی صاحب صحافت کے آل راؤنڈر تھے۔ وہ کالموں، اداریوں میں بھی ایسے زبردست جملوں کا اضافہ کر دیتے کہ ’’آنکھیں دیکھتی رہ جاتیں‘‘ اور بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا۔ محترم نظامی صاحب کی ایک بہت بڑی صفت یہ بھی تھی کہ وہ سچ پر نہ صرف ڈٹ جاتے بلکہ اپنے سٹاف کو بھی مکمل تحفظ فراہم کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ’’سْرخی‘‘ پر جو اس وقت کے مزاج شاہی کو گراں گزری اور ’’ایک بااختیار شخص‘‘ مجھے نوائے وقت سے نکلوانے کیلئے اڑھائی گھنٹے محترم نظامی صاحب کے گھر بیٹھے رہے لیکن قریبی تعلقات کے باوجود محترم نظامی صاحب پوری طرح ڈٹے رہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے خبر بھی نہ ہونے دی تاکہ میں پورے اعتماد سے کام کرتا رہوں یہ تو بعد میں مجھے بعض ذرائع سے معلوم ہوا تو میرے دل میں انکا احترام اور بھی بڑھ گیا۔
محترم مجید نظامی چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر سب کا خیال رکھتے تھے۔ انچارج کے طور پر 18 برس کی رفاقت میں اتنی یادیں اور باتیں ہیں کہ سنانے لگوں تو کالم کی کئی قسطیں بنانا پڑیں لیکن باتیں ختم نہ ہوں۔ اللہ سے دْعا ہے وہ ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین) 
اس وقت نوائے وقت گروپ کی کمان محترمہ رمیزہ مجید نظامی کے ہاتھ میں ہے جو صحافتی اور انتظامی سمجھداری کے حوالے سے ہمیشہ ایک قدم آگے رہتی ہیں۔ نوائے وقت گروپ کے چیف اپریٹنگ آفیسر کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری ایک درویش منش اور پیارے شخص ہیں۔ وہ پڑھنے لکھنے کے انتہائی شوقین ہیں اور کتابوں کے ایک وسیع ذخیرے کے مالک ہونے کے باوجود اچھی کتاب دیکھ کر بچوں کی طرح مچل جاتے ہیں۔ ان کے آنے سے نوائے وقت گروپ کا فیملی تاثر مزید مضبوط ہوا ہے۔ ایڈیٹوریل انچارج سعید آسی صاحب بھی درویش صفت انسان اور اعلیٰ پائے کے صحافی ہونے کے ساتھ نہایت اچھے ادیب اور شاعر ہیں۔ وہ اداریہ کے حوالے سے نوائے وقت کی روایات کا پوری طرح تحفظ کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن