خالد کاشمیری
پاکستان میں آزادیٔ صحافت کی تاریخ میں جن جلیل القدر اخبار نویسوں کے نام روشن ستاروں کی مانند چمکتے رہیں گے، ان میں مجید نظامی مرحوم کا نام نامی بھی شامل ہے۔ ایک مسلمہ حقیقت تو یہ ہے کہ مجید نظامی مرحوم نے تاحیات صحافت ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا اہلِ نظر نے انہیں پاکستان کی نظریاتی اور فکری صحافت کے دفاع اور ترویج کا علمبردار قرار دیتے ہوئے ’’آبروئے صحافت کے لقب سے ملقب کیا سچ تو یہ ہے کہ مجید نظامی مرحوم بجا طور پر اس القاب کے مستحق ہیں۔ بلاخوف تردید یہ بات تاریخ کا حصہ بن گئی ہے بیسویں صدی کے آخری تہائی حصے سے لے کر اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے بعد پاکستان میں جرأتِ اظہار کے در بند ہو گئے۔ اس وقت سے قبل تک مجید نظامی مرحوم کی ذات ہی تھے، جو مایوس دلوں میں حوصلوں ولولوں اور جرأتوں کے چراغوں کو لُو کو تیز تر کرنے میں کبھی کوتاہی نہ کرتے۔
مجید نظامی مرحوم سر تاپا نظریہ پاکستان کے علمبردار تصورِ پاکستان کے خالق حکیم الامت علامہ اقبال کے شیدائی اور بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم کے فدائی تھے۔ ملک میں ایسے جمہوری نظام کے خواہاں تھے جو حکیم الامت علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان کے واضح افکار اور تعلیمات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہو۔ اسی حوالے سے ان کی عملی جدوجہد اور قلم کی تمام تر توانائیاں روزنامہ نوائے وقت کے ورق ورق پر نمایاں رہیں۔
مجید نظامی مرحوم نے فیصل آباد کے قریب ایک شعبہ سانگلہ ہل میں /3 اپریل 1928ء کو جنم لیا تھا۔ ان کے والد ماجد کا نام میاں محمد دین تھا۔ جو اوائل جوانی میں محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ کچھ عرصہ شاہ کوٹ ڈاکخانہ چلاتے رہے۔ اس کے بعد سانگلہ ہل میں انہوں نے صابن کا کاروبار شروع کر دیا۔ انہیں برصغیر پاک و ہند کے نامور روحانی پیشوا حضرت خواجہ نظام الدین سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ بلکہ عشق کی حد تک لگائو کہہ لیں اور اسی کی بنیاد پر میاں محمد دین نے اپنے نام کے ساتھ لگایا۔ یہ ان کی طرف سے بیعت کا بھی ذریعہ تھا اسی مناسبت سے ان کے سبھی بیٹوں نے جن میں بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی مرحوم ، معمار نوائے وقت مجید نظامی اور دیگر نے بھی نظامی کو اپنے نام کا لازمی جزو بنایا بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ جناب مجید نظامی کا بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے جبکہ دو بہنیں تھیں۔
جناب مجید نظامی نے اپنے برادر اکبر حمید نظامی کے انتقال کے بعد /26 فروری 1962ء کو روزنامہ نوائے وقت کا چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے انتظام سنبھالا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مجید نظامی مرحوم اپنی زندگی ہی میں چھوٹے بھائی مجید نظامی کو ادارے کا ٹیکنیکل ڈائریکٹر اور ایڈیٹر مقرر کر چکے تھے۔ اس وقت مجید نظامی لندن میں تھے اور برادر اکبر حمید نظامی کی علالت کی اطلاع ملنے پر لندن سے لاہور آ گئے تھے۔ لندن میں آپ 1959ء سے نوائے وقت کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اپنے قیام لندن کے دوران جناب مجید نظامی مرحوم نے لندن یونیورسٹی سے انٹرنیشنل افیئرز کی تعلیم حاصل کی۔
مجید نظامی مرحوم نے جب روزنامہ نوائے وقت کی ادارت سنبھالی تو اس وقت نا صرف پاکستان میں آمرانہ حکومت تھی، جمہوریت کا گلا گھونٹا جا چکا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان بلاشرکت غیرے ……مملکت تھا۔ بلکہ اس وقت روزنامہ نوائے وقت اقتصادی طور پر انتہائی نامساعد حالت سے دوچار تھا۔ پورا ملک گھٹن کا شکار تھا۔ مجید نظامی مرحوم نے ان دنوں کے ملکی حالات کا اپنے اس دور کے ایک انٹرویو میں خود اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس وقت نواب آف کالا باغ گورنر مغربی پاکستان تھے۔
چونکہ اس وقت پاکستان خیبر سے چائٹگام تک پھیلا ہوا تھا اور آج کے پاکستان کو مغربی پاکستان کے نام سے پکارا جاتا تھا یہ ایک صوبہ تھا اور دوسرا صوبہ مشرقی پاکستان تھا، بہرحال مجید نظامی مرحوم نے بتایا کہ گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خاں نواب آف کالا باغ بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی مرحوم کی تعزیت کے لیے گھر تشریف لائے اس کے چند یوم بعد کچھ دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے (مجید نظامی) کو بھی گورنر کالا باغ سے ملنے جانا چاہیے چنانچہ میں انہیں ملنے گورنر ہائوس لاہور گیا۔ دوران گفتگو نواب کالا باغ کہنے لگے کہ میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ، میں نے کہا فرمائیے، انہوں نے کہا کہ دیکھئے آپ کے بھائی (حمید نظامی مرحوم) نے جو پالیسی چھوڑی ہے اگر آپ اسے جاری نہیں رکھتے تو You will be lessthan a man. (تو پھر یہ مردانگی نہیں ہو گی) یہ بات انہوں نے انگریزی میں کہی میں نے ان سے ’کہا نواب صاحب آپ فکر نہ کریں
(You would,t
find me lessthan a man) یہ پالیسی انشاء اللہ جاری رہے گی سچی بات تو یہ ہے کہ نواب کالا باغ کے سامنے کہی ہوئی بات پر مجید نظامی مرحوم ’’تادمِ آخر پورے اُترے۔
مجید نظامی اس دور میں خوش رنگ و خوش پوش، خوش رو اور خوش مزاج نوجوان ایڈیٹر تھے، جن کی ذات قدیم اقدار اور جدید روایات کا حسین امتزاج تھی۔ عہد شباب تھا۔ مگر قہقہے صرف مسکراہٹوں تک محدود تھے۔ مجلسی زندگی میں ان کے تیکھے اور نوکیلے انداز تکلم کی حلقہ یاراں میں دھوم تھی۔ ایسی تمام تر خصوصیتوں کے علی الرّغم مجید نظامی کے ایک ایسے اخبار نویس کا روپ دھار لیا تھا جو اول و آخر اخبار نویس تھا اور پھر اس نے کم و بیش پون صدی تک ملک و قوم کو گھیرنے والے ہر بحران میں اربابِ اختیار کی بے مہریوں کے نتیجے میں مایوسیوں اور بے بسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطے کھاتی ہوئی قوم میں جبر و استبداد کے آگے بند باندھنے کا حوصلہ دیا۔
صحافت پر پابندیوں کی تیرہ و تار فضائوں میں خون دل سے ولولوں کے بجھتے چراغ روشن رکھے۔
اپنے طویل عہد ادارت میں انہوں نے قومی یکجہتی اور ملکی سالمیت کے حوالے سے فرمودات قائد اعظم کو لمحہ بھر کے لیے فراموش نہ کیا، بلکہ انہیں اپنی صحافت کے مقاصد کی جگہ دی۔ تحریک آزادی کشمیر کو جزوایمان سمجھ کر صحافتی اور مجلسی محاذ پر بھرپور جدوجہد کرتے رہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان کی تکمیل کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ آپ کشمیر کو فرمودات قائد کے مطابق پاکستان کی شہ رگ ہی سمجھتے تھے۔ ان کے ایسے خیالات کی گونج بیرونی ممالک میں بھی سنی جاتی رہی۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بھارت کے ایک سابق ہائی کمشنر متعینہ پاکستان مسٹر ’’پارتھا سارتھی‘‘ کا یہ کہنا کس قدر معنی خیز تھا کہ یہ کراچی کا واقعہ ہے، جہاں ’’پارتھا سارتھی‘‘ ایک تقریب میں اخبار نویسوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے تصفیہ میں کیا رکاوٹ ہے؟ تو ’’پارتھا سارتھی‘‘ نے انگریزی میں جواب دیا۔
In one word, "Nizami" he is the only obstacle
ایک لفظ نظامی، صرف وہ ہی رکاوٹ ہیں۔
بھارتی اچھی طرح جانتے تھے کہ مجید نظامی کشمیر پر نہ کسی قسم کی سودے بازی ہونے دیں گے نہ ہی کوئی پاکستانی یہ جرأت کر سکے گا کہ بھارت سے تجارت کا ڈول ڈالے۔
تاریخ اس حقیقت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور مارشل لاء سے پاکستان میں مطلق العنانیت کے بدترین دور کا حرف آغاز تھا، مگر مجید نظامی مرحوم اخبارات پر بے پناہ پابندیوں اور گھٹن کے اس ناقابلِ برداشت دور میں بھی قلندرانہ انداز میں بے خوف ہو کر بیباک انداز تحریر میں حسن و صداقت کی بات کہتے رہے حکمرانوں کو ان کے منہ پر سچی اور کھری کھری سنانے سے کبھی نہ چوکتے انہی دنوں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان نے کراچی میں ملک بھر کے مدیرانِ جرائد کی ایک خاص میٹنگ ہوئی، جس میں ایوب خان نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئے، اپنے گریبان میں منہ ڈالیں‘‘ مجید نظامی اس وقت عالم شباب میں تھے اپنی نشست سے اٹھ کر ایوب خان سے مخاطب ہوئے اور کہا ’’جان کی امان ہے‘‘ اور پھر یوں گویا ہوئے ’’مجھے کس بات پر شرم آنی چاہیے، آپ بتا سکتے ہیں؟ ایوب خان فوراً بولے۔ آپ بیٹھ جائیں میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا‘‘
اس پر مجید نظامی بولے ’’فیلڈ مارشل صاحب! آئندہ آپ جب بات کریں تو اُس کی طرف اشارہ کر کے بات کریں کہ تمہیں شرم آنی چاہیے۔ تم یہ کر رہے ہو آپ ہم سب کو کہہ رہے تھے، کہ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ آپ کو اپنے گریبانوں میں منہ ڈالنے چاہئیں۔
میں تو جب اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے آپ یہ کس طرح کہہ رہے ہیں‘‘۔ ایوب خان کو مجید نظامی کی ان باتوں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور یہ کہنا پڑا کہ آپ تشریف رکھیں آپ کی طرف اشارہ نہیں تھااور آئندہ جیسا آپ کہہ رہے ہیں ایسا ہی ہو گا۔
ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان مرحوم سے تعلق رکھنے والے اخبار نویسوں کو شکوہ تھا کہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان کے اخبار نویس زیادہ تر مارشل لاء حکمرانوں کی خوشامد اورحاشیہ آرائی کرنے والے ہیں۔ مگر اس حصے کی صحافت پر لگنے والے ایسے داغ کو جناب مجید نظامی نے اپنے دلیرانہ اور جرأت مندانہ کردار سے دھویا۔ اسی طرح اسی طرح ایک واقعہ بھی ہے جو اخبارات کی زینت بن چکا ہے کہ ایوب خان نے مغربی اور پاکستان کے ایڈیٹروں سے ڈھاکہ میں گفتگو کے دوران کہہ دیا کہ مجھے پتہ ہے کہ اخبار نکالنا ایک کاروبار ہے، جب وہ بات کر چکے تو مجید نظامی نے کہا ’’جنرل صاحب میں کچھ عرض کر سکتا ہوں‘‘ کہنے لگے ’’جی کیوں نہیں، اس پر مجید نظامی نے کہا کہ آپ کے صاحبزادہ گوہر ایوب فوج کو چھوڑ کر گندھارا انڈسٹریز ……کے مالک بن گئے ہیں بڑے کاروبار کر رہے ہیں آپ ان کو ایک اخبار بھی نکلوا دیں، پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ اخبار فروشی یا اخبار نکالنا کتنا بڑا کاروبار ہے، بہتر یہی ہے کہ گوہر ایوب سے ایک اخبار نکلوا لیں، مجید نظامی مرحوم کے ایوب خان کے منہ پر یہ سب کچھ کہنے پر مشرقی پاکستان کے اخبارات کے ایڈیٹر ششدر رہ گئے بعد میں ایک نے مجید نظامی سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ مغربی پاکستان والے صحافی بھی مارشل لاء کی ہمنوائی کرنے والے ہیں۔
جب بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 1964ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی صدارتی امیدوار بن گئیں تو وہ مجید نظامی مرحوم اور ان کے اخبار نوائے وقت کے لئے انتہائی پرخطر اور کٹھن دور تھا۔ مجید نظامی مرحوم کی ہمدردیاں شروع دن ہی سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھیں اور نوائے وقت نے جی جان کے ساتھ مادر ملت کی حمایت کی۔ جبکہ ایوب خان نے حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر پوری طرح دبائو ڈالا کہ مجید نظامی کسی طرح مادر ملت کی حمایت نہ کریں۔ مگر مجید نظامی کو زیر دام لانا ممکن نہ تھا، مجید نظامی مرحوم نے مصلحتوں کی خاطر اصولوں کو قربان کر دینا گویا سیکھا ہی نہیں تھا۔ اپنی تحریروں کے علاوہ مختلف نجی اور عوامی مجالس میں بھی برملا فرمایا کرتے کہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی تبھی چل سکتی ہے کہ اگر اپوزیشن لیڈر اور حکمران آپس میں ’’رول آف گیمز‘‘ کے مطابق چلیں ایک دوسرے کو عزت و احترام دیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا تجربہ ناکام رہے۔ اپنے اسی فارمولے کی روشنی میں انہوں نے ہر دور میں بڑے بڑے جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کو وقت کے اپوزیشن رہنمائوں سے مل بیٹھ کر سیاسی معاملات طے کرنے کے مشورے دئیے۔
ملک کی صحافتی تاریخ کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ مجید نظامی مرحوم نے روزنامہ نوائے وقت کو ایک مضبوط ، مستحکم گروپ آف نیوز پیپرز کی شکل دی۔ قومی سطح کا انگریزی روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ جاری کیا۔ سیاسی ہفت روزہ ندائے ملت کا اجراء کیا، بچوں کا سب سے مقبول ہفتہ وار پھول اور خواتین کے لئے ہفتہ وار فیملی میگزین بھی ’’نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز‘‘ کے بینر تلے شائع ہوئے۔
آبروئے صحافت مجید نظام مرحوم کی ذات گرامی کے ہر چند کئی ایک درخشاں پہلو ہیں۔ جو مسلسل ساٹھ برس تک قلم و قرطاس کے ذریعے حریتِ فکر کے چراغ روشن کرتے رہے انہیں زندگی میں عارضہ قلب کے باعث تین بائی پاس کے مرحلوں سے بھی گزرنا پڑا۔
انہیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے اعلیٰ ترین قومی اور صحافتی خدمات پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی جو بجاطور پر اس اعزاز کے مستحق تھے ، ملک کے مدیران جرائد کی تنظیموں (جن میں پی این ایس اور سی پی این ای شامل ہیں) منظم اور مستحکم کرنے میں سرگرم رہے اور ان کے سربراہ بھی منتخب ہوتے رہے۔