بدھ کے روز ایک جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک فلسطینی طالبِ علم کارکن کو رہا کر دیا جنہوں نے غزہ کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ انہیں امیگریشن حکام نے امریکی شہریت کو حتمی شکل دینے سے متعلق ان کے انٹرویو کے دوران گرفتار کیا تھا۔امیگریشن حکام نے ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی دنوں سے ہی پورے ملک سے کالج کے طلباء کو گرفتار کیا اور حراست میں لے رکھا ہے جن میں سے اکثر نے اسرائیل-حماس جنگ کے خلاف کیمپس میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا۔ اس جنگ میں 52,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔محسن مہدوی ان میں سے پہلے طالبِ علم ہیں جنہوں نے گرفتاری کو چیلنج کرنے کے بعد آزادی حاصل کی۔ وہ بدھ کے روز ورمونٹ کی ایک عدالت سے باہر نکلے اور نعرے لگاتے ہوئے سینکڑوں حامیوں کی قیادت کی جس میں "کوئی خوف نہیں" اور "آزاد فلسطین" کے نعرے شامل تھے۔ انہوں نے کہا، جمہوریت اور انسانیت دونوں کے دفاع کے لیے لوگوں کو مجتمع ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا، "اس خیال سے کبھی دستبردار نہ ہوں کہ انصاف کی فتح ہو گی۔ ہم انسانیت کے لیے کھڑے ہونا چاہتے ہیں کیونکہ نہ صرف فلسطین بلکہ باقی دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ اور جو کچھ امریکہ میں ہونے والا ہے، اس کا باقی دنیا پر اثر ہو گا۔"چونتیس سالہ مہدوی 10 سال سے قانونی طور پر مستقل امریکی رہائشی ہیں۔ وہ 14 اپریل سے ریاست ورمونٹ کی ایک جیل میں تھے۔ ان کی رہائی کے حکم نامے میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جیفری کرافورڈ نے کہا، مہدوی نے "کافی اہم دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے انہیں اس تقریر کو روکنے کے لیے گرفتار کیا جس سے وہ متفق نہیں ہے۔"جج نے لکھا، "حتیٰ کہ اگر وہ ایک شعلہ بیاں مقرر تھے، پھر بھی ان کے طرزِ عمل کو پہلی ترمیم کا تحفظ حاصل ہے۔" انہوں نے مزید کہا، سیاسی مخالفین کو ناراض کرنے یا محکمۂ خارجہ کے لیے خطرہ بننے سے وہ اتنے خطرناک نہیں ہو جاتے کہ ان کی نظر بندی قابلِ جواز ہو۔امریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے تحت مہدوی کو ملک سے نکال سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ ان کی موجودگی اور سرگرمیاں "خارجہ پالیسی پر سنگین منفی اثرات اور ایک مضبوط امریکی خارجہ پالیسی کے مفاد پر سمجھوتہ کرنے کا باعث بنیں گی۔"ایک حکومتی وکیل نے بدھ کو کہا، مہدوی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے 2015 میں اُن الزامات کی ایف بی آئی کی تحقیقات کی طرف اشارہ کیا کہ انہوں نے اسلحے کی دکان پر یہودیوں کے بارے میں دھمکی آمیز تبصرے کیے تھے - لیکن جج نے کہا کہ بظاہر ایف بی آئی نے یہ تعین کیا ہے کہ یہ الزامات جھوٹے تھے۔مہدوی جمعرات کو لوزیانا میں امیگریشن جج کے سامنے فاصلاتی طور پر پیش ہوں گے، ان کے وکلاء نے بتایا۔ امریکی اٹارنی کے دفتر نے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے پیغامات کا جواب نہیں دیا کہ آیا وہ ان کی رہائی کی اپیل کریں گے۔عدالتی دستاویزات کے مطابق مہدوی اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 2014 میں امریکہ چلے گئے تھے۔ انہوں نے مارچ 2024 تک کولمبیا میں کیمپس میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا اور محمود خلیل کے ساتھ مل کر سکول کی فلسطینی سٹوڈنٹ یونین قائم کی۔ خلیل ایک اور فلسطینی مستقل رہائشی اور گریجوایٹ ہیں جو مارچ میں گرفتار ہوئے۔خلیل کو تقریباً آٹھ ہفتوں سے لوزیانا کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے اور وہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر موجودگی سے محروم ہیں۔ ایک امیگریشن جج نے فیصلہ دیا کہ خلیل کو قومی سلامتی کے خطرے کے طور پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ایک اور اعلیٰ سطحی مقدمے میں ٹفٹس یونیورسٹی کی ترکی سے تعلق رکھنے والی طالبہ رومیسہ اوزترک کو مارچ میں اس الزام پر حراست میں لیا گیا تھا جو ان کے وکلاء کے مطابق ایک ذاتی رائے پر مبنی کالم تھا جو انہوں نے طلباء کے ایک اخبار میں مشترکہ طور پر لکھا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے جائزے کے مطابق مارچ کے آخر سے ملک کے طول و عرض میں کالج کے 1,000 سے زیادہ طلباء کے ویزے منسوخ یا ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ ایک سرکاری وکیل نے جمعہ کو کہا کہ متعدد بین الاقوامی طلباء نے قانونی حیثیت کے خاتمے کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے جس کے بعد سے وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے لے گی۔جج نے اپنے فیصلے میں اوزترک کے اور اسی کے طرح کے دیگر مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی گرفتاریاں 1919 اور 1920 میں مشتبہ انتشار پسندوں اور کمیونسٹوں کو نشانہ بنانے والے ملک گیر چھاپوں اور 1950 کے عشرے کے میکارتھی دور میں ملک بدری کی یاد تازہ کرتی ہیں۔انہوں نے 1950 کے ایک مقدمے میں اختلافِ رائے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، "سکیورٹی آزادی کی طرح ہے کہ اس کے نام پر بہت سے جرائم کیے جاتے ہیں۔مہدوی کی رہائی انہیں ان کی آبائی ریاست ورمونٹ سے باہر سفر کرنے اور نیو یارک میں اگلے ماہ گریجویشن میں شرکت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کولمبیا میں کورس ورک مکمل کیا اور موسمِ خزاں میں وہاں ماسٹرز ڈگری پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔آئیوی لیگ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے پر متعدد پالیسی تبدیلیاں نافذ کرنے پر رضامند ہو گئی جس پر اسے بعض طلباء کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مہدوی کی رہائی کے بعد سکول کی ترجمان ملی ورٹ نے کہا، ملک کا ہر فرد اپنی شہریت کی حیثیت سے قطع نظر مناسب قانونی کارروائی کا مستحق ہے۔ورمونٹ کورٹ ہاؤس کے باہر مہدوی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا، "میں آپ سے نہیں ڈرتا۔"انہوں نے کہا، "اگر کوئی خوف نہیں ہے تو اس کی جگہ کیا چیز ہو گی؟ محبت۔ ہمارا راستہ محبت ہے۔