سماجی پولرائزیشن، ایک ادبی و فکری جائزہ


جب دلوں میں فاصلے، سوچوں میں خلیج اور رویّوں میں تعصب گھر کر جائے، تو بسا اوقات ایک ہی زبان بولنے والے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ یہی ہے سماجی پولرائزیشن کا سچ، جو نہ خنجر سے زخمی کرتا ہے، نہ گولی سے، بلکہ رشتوں، نظریات اور احساسات کو خاموشی سے توڑ دیتا ہے۔زمانۂ جدید کی دنیا جس برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی قدر پیچیدہ اور مخدوش ہو چکی ہے۔ اْس کے معاشرتی رشتے، اقدار، اور باہمی ہم آہنگی کی بنیادیں۔ اسی تناظر میں ایک ایسا نفسیاتی، فکری اور تمدنی مظہر اْبھر کر سامنے آیا ہے، جسے ہم’’سماجی پولرائزیشن‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، یا یوں کہیے کہ معاشرہ فکری دھڑوں میں بٹنے لگا ہے۔
یہ تقسیم صرف سطحی یا وقتی نہیں، بلکہ گہرائی میں سرایت کیے ہوئے وہ خلیج ہے جو دلوں، ذہنوں اور رویّوں کے درمیان حائل ہو چکی ہے۔ جہاں ایک وقت میں اختلافِ رائے فہم و فراست کی علامت گردانا جاتا تھا، آج وہی اختلاف دشمنی اور اجنبیت کا روپ دھار چکا ہے۔ گویا ایک دوسرے سے متضاد خیالات رکھنے والے افراد اب نہ صرف ایک دوسرے سے نظریاتی دوری اختیار کر چکے ہیں، بلکہ جذباتی و معاشرتی اعتبار سے بھی بیگانگی کا شکار ہو چکے ہیں۔
اعداد و شمار اس تلخ حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ 2023ء میں ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق، دنیا کے 64 فیصد افراد نے کہا کہ وہ اْن لوگوں کے ساتھ مکالمہ نہیں کرنا چاہتے جو اْن کے نظریات سے اختلاف رکھتے ہوں۔ کیا یہ فکری تنوع کا زوال نہیں؟ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جس میں افکار کی آزادی کو انسانی وقار کا جزوِ لاینفک سمجھا جاتا تھا؟
اس فکری تقسیم میں جدید ذرائع ابلاغ، خصوصاً سوشل میڈیا، نے ایسا کردار ادا کیا ہے گویا تیز دھار تلوار۔ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا نے اظہار کی آزادی کو عام کیا، وہیں دوسری طرف مخصوص الگورتھمز اور ’’ایکو چیمبرز‘‘ نے ہر فرد کو اس کے ہی خیالات کی گونج میں محدود کر دیا۔ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، 78 فیصد صارفین نے اعتراف کیا کہ وہ ایسے مواد تک رسائی رکھتے ہیں جو صرف ان کے نظریات کی تائید کرتا ہے۔ نتیجتاً، مخالف نظریات کو نہ صرف رد کیا جاتا ہے بلکہ انکے حامل افراد کو شک، نفرت اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔سیاست کا دائرہ اس تقسیم کا شاید سب سے بڑا میدان ہے۔ عوام دو انتہائوں میں بٹ چکے ہیں، جہاں یا تو کوئی مکمل سچ ہے یا سراسر جھوٹ۔ درمیانی راہ گویا ناپید ہو چکی ہے۔ انتخابات کے نتائج، پارلیمانی بحثیں، حتیٰ کہ خاندانی محفلیں بھی اس دو رنگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ امریکہ، بھارت، برازیل اور پولینڈ میں حالیہ سیاسی تغیرات اس تقسیم کےآئینہ دار ہیں۔
تعلیم، جو کہ ذہن سازی اور فکری وسعت کا ذریعہ ہونی چاہیے، وہ بھی پولرائزیشن کے زیرِ اثر آ چکی ہے۔ نوجوان ذہن اگر نظریاتی انتہاپسندی کا شکار ہو جائیں، تو نہ صرف تعلیم کا مقصد فوت ہوتا ہے بلکہ پورا معاشرہ علمی تاریکی میں ڈوبنے لگتا ہے۔ ایک حالیہ برطانوی تحقیق میں 43 فیصد طلبہ نے کہا کہ وہ تعلیمی ماحول میں اپنے خیالات کے اظہار سے ہچکچاتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ غالب رجحان سے مختلف ہوں۔
معاشی ناہمواری، جو خود ایک عالمگیر المیہ ہے، اس تقسیم کی جڑوں کو مزید گہرا کرتی ہے۔ جب ایک طبقہ دولت، وسائل اور مواقع پر قابض ہو، اور دوسرا محرومی، مایوسی اور بے چینی کی دلدل میں دھنس جائے، تو ایسے میں نظریاتی انتہاپسندی، احساسِ محرومی اور معاشرتی نفرت کی آگ بھڑکنا ناگزیر ہو جاتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق دنیا کی صرف 10 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی 76 فیصد دولت ہے۔ ایسی صورتِ حال میں سماجی توازن کا قائم رہنا ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
ثقافت، مذہب، زبان اور علاقائی شناختیں جب غیر متوازن سیاست یا منفی پروپیگنڈے کا ایندھن بن جائیں، تو ان کا انجام بھی فکری تقسیم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ مسلمان اقلیتوں کے ساتھ چین، بھارت اور فرانس جیسے ممالک میں روا رکھے جانے والے سلوک نے اس تھیوری کو حقیقت کا رنگ دے دیا ہے۔ سائنسدانوں اور ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان فطری طور پر اْن گروہوں کی طرف مائل ہوتا ہے جن سے وہ خود کو وابستہ سمجھتا ہے۔ یہ رجحان، اگر متوازن حد تک رہے، تو سماجی ہم آہنگی میں رکاوٹ نہیں بنتا، لیکن جب یہ دوسروں کو رد کرنے یا نفرت کی بنیاد بن جائے، تو معاشرہ رفتہ رفتہ زوال کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔
مگر یہ منظرنامہ صرف مایوسی کا پیغام نہیں دیتا۔ اس سے دھڑوں میں بٹے معاشرے کو جوڑنے کا عمل بھی ممکن ہے، بشرطیکہ ہم سنجیدگی سے اسکے اسباب کو سمجھیں اور ان کا حل تلاش کریں۔سب سے پہلے، ہمیں ’’مکالمہ‘‘ کو فروغ دینا ہوگا ۔ ایسا مکالمہ جو سننے، سمجھنے اور سیکھنے کے جذبے سے لبریز ہو۔ دوسروں کی بات سننا، اختلاف کو قبول کرنا، اور فکری تنوع کو رحمت سمجھنا، یہی وہ اوزار ہیں جن سے ہم اس خلیج کو پاٹ سکتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں تنقیدی سوچ اور فکری تنوع کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ طلبہ کو صرف علمی مواد ہی نہیں، بلکہ برداشت، گفتگو اور افہام و تفہیم کے ہنر بھی سکھائے جائیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ وہ متنوع مواد کی ترسیل کو یقینی بنائیں، نہ کہ صارفین کو محدود خیالات میں قید کر دیں۔
معاشی اور سماجی پالیسیاں ایسی ہوں جو شراکت، شفافیت اور مساوات پر مبنی ہوں۔ جب معاشرے کا ہر فرد خود کو اس نظام کا حصہ محسوس کرے گا، تب ہی نفرت، تعصب اور دوری کی دیواریں گرائی جا سکیں گی۔اور آخر میں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ فکری اختلاف نہ صرف فطری ہے بلکہ ترقی کا زینہ بھی۔ ہمیں ایسے معاشرے کی تشکیل کرنی ہے جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے، جہاں دلیل کو گالی پر فوقیت دی جائے، اور جہاں ہر فرد کی آواز کو سنا جائے، چاہے وہ کسی بھی نظریے کا حامل ہو۔اسی میں بقاء ہے، اسی میں ترقی ہے، اور اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن