ججز ٹرانسفر کیلئے   3 چیف جسٹسز نے رضامندی کا اظہار کیا: جسٹس علی مظہر

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کی۔ آئینی بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور شامل تھے۔ درخواست گزار پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل دو سو کا ذیلی سیکشن ون اکیلا نہیں ہے، سیکشن ون کا آرٹیکل 200 کے سیکشن ٹو سے لنک ہے، جج کا تبادلہ ایگزیکٹیو ایکشن ہے، سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو ججز تبادلے کا اختیار کیسے استعمال کرے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا تبادلے کا اختیار استعمال کرنے کیلئے ایگزیکٹو کیلئے کوئی شرط ہے؟۔ منیر اے ملک نے کہا ججز تبادلے کی سمری وزارت قانون نے وزیر اعظم کو بھیجی، وزیر اعظم نے سمری پر صدر کو ایڈوائس کردی، ججز تبادلے کی سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا آپ آج اپنے دلائل ختم کر لیں گے؟۔ منیر اے ملک نے کہا آج نہیں کر سکوں گا، کوشش کروں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپ آج ختم کریں گے تو پیر سے کسی اور وکیل کے دلائل شروع ہو سکیں گے۔ بینچ کے ایک رکن نے کراچی کیلئے روانہ ہونا ہے۔ منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کیلئے سمری میں بھی تضاد ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سیکرٹری قانون نے لکھا کہ کوئی سندھ کا جج نہیں، چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ سے کوئی جج نہیں۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ پہلی جو سمری تیار ہوئی اس میں اندرون سندھ کا ذکر تھا، یہ انجانے میں کی گئی غلطی ہوسکتی ہے۔ منیر اے ملک نے موقف اخیتار کیا کہ سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوران سماعت منیر اے ملک نے قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا عدالتی امور سے متعلق صدر کو آزادانہ مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے، ججز ٹرانسفر کی سمریوں سے عیاں ہوتا ہے صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک ہی دن منظوری دی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ججز ٹرانسفر کیلئے تین چیف جسٹس صاحبان نے رضامندی کا اظہار کیا۔ منیر اے ملک نے کہا کہ ٹرانسفر کی وجوہات میں لکھا گیا پنجاب میں متناسب نمائندگی کے اصول کو سامنے رکھ کر ایسا کیا جا رہا ہے، کہا گیا پنجاب سے صرف ایک جج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس عامر فاروق، جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق خان پنجاب کے ڈومیسائل سے ہیں، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے ججز ٹرانسفر کیے گئے۔ بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت سات مئی تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن