پولیو کے خاتمے کیلئے وزیر اعظم پْر عزم

وطن عزیزپاکستان میںوزیر اعظم میاں شہباز شریف کی زیر قیادت پولیو کے خلاف سال رواں کی دوسری ملک گیر ویکسی نیشن مہم پورا ہفتہ جاری رہنے کے بعد ختم ہوگئی۔ اس مہم کا مقصد حفاظتی قطرے پلا کر تقریباً 45 ملین بچوں کو اس بیماری سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیو کی بیماری کے خلاف پاکستان میں سال 2025ء کی اس دوسری ملک گیر مہم کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں بچوں کو متاثر کرنے والی اس بیماری کے نئے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔اس مہم کے دوران ملک بھر میں پینتالیس ملین بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلائیگئے۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت بدقسمتی سے صرف پاکستان اور اس کا ہمسایہ ملک افغانستان ہی دو ایسی ریاستیں ہیں، جہاں اس بیماری کا تاحال مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ پولیو کی بیماری ممکنہ طور پر بچوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے اور اپنے کم عمر متاثرہ مریضوں کو یہ کلی یا جزوی طور پر جسمانی معذوری کا شکار تو بنا ہی دیتی ہے۔پاکستان میں اس سال جنوری میں چھ نئے کیسز کی تصدیق ہو ئی۔ لیکن اس میں بھی کچھ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ فروری کے مہینے سے اب تک اس مرض کا پاکستان میں کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔اس سے قبل گزشتہ برس پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، پولیو کے نئے کیسز میں واضح اضافہ دیکھا گیا تھا اور ان کی تعداد 74 رہی تھی۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 2024ء میں پولیو کے 74 نئے کیسز سے قبل پاکستان میں اس سے پہلے 2021ء میں اس بیماری کا صرف ایک نیا واقعہ سامنے آیا تھا۔ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماضی قریب میں پولیو کے خلاف جنگ بظاہر حتمی کامیابی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی تھی، وہ 2024ء میں واضح طور پر ناکام ہوتی دکھائی دی۔ اسی لیے اب حکومت نے ملک میں اس سال کی دوسری قومی ویکسی نیشن مہم کا اہتمام کیا۔
وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نیانسداد پولیو کی اس نئی مہم کے آغاز پر ملک بھر میں چھوٹے بچوں کے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ رواں ہفتے اپنے اپنے رہائشی علاقوں میں گھر گھر جانے والے طبی عملے سے تعاون کریں اور اپنے بچوں کے پولیو کے خلاف حفاظتی قطرے پلوائیں، تاکہ ملک سے اس بیماری کا خاتمہ کیا جا سکے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت ملک سے پولیوکے خاتمے کے لیے پر عزم ہے، انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لیے والدین تعاون کریں۔ اسلام آبادمیں قومی انسداد پولیو مہم کی افتتاحی تقریب میںوزیر اعظم شہباز شریف نے بچوں کو قطرے پلا کر سات روزہ مہم کا آغاز کیا۔یہ سات روزہ انسداد پولیو مہم 27 اپریل تک جاری رہی۔ اس مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلائے گئے۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بچوں کے محفوظ مستقبل کیلیے پولیو کا خاتمہ ضروری ہے اور حکومت ملک سے پولیو کے مکمل خاتمہ کیلیے پر عزم ہے۔انہوں نے کہا کہ مربوط حکمت عملی اور مشترکہ کوششوں سے ملک سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے۔ انسداد پولیو مہم کامیاب بنانے کیلئے والدین بھی تعاون کریں۔وزیر ناعظم شہباز شریف نے کہا کہ عالمی شراکت داروں کے تعاون کے بغیر پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات پولیو کے موذی وائرس کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔وزیراعظم نے بتایا کہ پولیو ورکرز کی سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا کہناتھا کہ پولیو کے قطرے نہ پلائے تو والدین کو آخرت میں جواب دینا پڑے گا۔مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ 4کروڑ50 لاکھ سے زائد بچوں کوپولیو سے بچائو کے قطرے پلائے گئے، دنیا میں پولیو صرف پاکستان اور افغانستان تک محدودرہ گیا ہے، خواہش ہے پاکستان اورافغانستان ملکر موذی مرض کامکمل خاتمہ کریں۔انھوں نے بتایا کہ ہائی رسک علاقوں میں انکاری والدین سے رابطے کیلئے مقامی بااثر افراد کو استعمال کیا گیا، کراچی میں 10روزمیں معززارکان کی مددسے علاقوں کو کور کیا گیا۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ والدین بچوں کوویکسین پلائیں گے تووائرس سے محفوظ رہیں گے ورنہ یہاں بھی بھگتیں گے، آخرت میں بھی اللہ کو جواب دینا پڑے گا۔وفاقی وزیر صحت نے کہاکہ پولیو کا مکمل خاتمہ قومی ترجیح ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پولیو کے خاتمے کا پختہ عزم کر رکھا ہے، حکومت پولیو کے خلاف جنگ میں عالمی شراکت داروں کے تعاون کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔انہوں نے کہاکہ پولیو پروگرام نے حساس اور زیادہ خطرے والے علاقوں کی نشاندہی کر لی گئی۔معیاری ویکسی نیشن مہمات کے ذریعے پولیو سے متاثرہ علاقوں میں اقدامات یقینی بنارہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ آنے والی پولیو مہمات میں پولیو کی صورتحال میں واضح بہتری نظر آئے گی۔
پاکستان میں ماضی میں مختلف عسکریت پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلح حملہ آور خاص طور پر ملکی صوبوں بلوچستان اور خیبر پختوانخوا میں بچوں کو پولیو ویکسین پلانے والی طبی ٹیموں کے ارکان اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ان حملوں کی وجہ عام طور پر مغرب مخالف عناصر کی طرف سے پھیلائی جانے والی یہ دانستہ غلط معلومات بنتی ہیں کہ عام بچوں کو یہ ویکیسن مبینہ طور پر اس لیے پلائی جاتی ہے کہ وہ بالغ ہو کر افزائش نسل کے قابل نہ رہیں اور یہ بھی کہ یہ عمل مبینہ طور پر مسلم بچوں کے خلاف ایک نام نہاد مغربی سازش کا حصہ ہے۔پاکستان میں انہی بیبنیاد افواہوں اور غلط معلومات کے تناظر میں 1990ء کی دہائی سے لے کر اب تک پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے مسلح حملوں میں 200 سے زائد اینٹی پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ان میں سے تقریباً 150 پولیو ورکر اور سکیورٹی اہلکار 2012ء کے بعد مارے گئے۔ابھی دو ہفتے قبل ہی پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں مسلح عسکریت پسندوں نے کم از کم دو ایسے اینٹی پولیو ورکرز کو اغوا بھی کر لیا تھا، جن کا تعلق عالمی ادارہ صحت سے تھا۔ ان حملہ آوروں نے ڈیرہ اسماعیل خان نامی شہر میں ان کارکنوں کی گاڑی پر فائرنگ کر کے پہلے اسے رکنے پر مجبور کر دیا تھا اور پھر اس میں سوار دو کارکنوں کو اغوا کر کے یہ عسکریت پسند اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن