ڈاکٹر طاہر بھلر
آج کا ہر پاکستانی اس سوچ میں مجھے تو غلطاں یا ناطقہ سربگریباں نظر آرہا ہے کہ کاش پاکستان کو اچھی اور تجربہ کار جسے عرف عام میں ،،کایاں،،لیڈرشپ کہتے ہیں کبھی میسر ہو گی جو پاکستان کو اس کی کشتی کو ہمیشہ کی طرح منجھدار سے نکال سکے جو بقول مغربی دوستوں کے نزدیک نہ تو عمران خان کی طرح انا پرستی اور بے لچک سیاست اور نہ بھٹو کی طرح ضرور ت سے زیادہ چالاکی ہوشیاری کا مظاہرہ کرے جس کو امریکا نے اینی توہین جانا اور ذولفقار علی بٹھو کو اپنی سپر پاور کے زعم اور نشے میں تختہ دار تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ جان ایف کینیڈی ساٹھ کی دہائی میں امریکا کے نوجوان صدر بنے۔ان کے بقول جب انہیں انڈین وزیراعظم پنڈت جواہر لال سے مذاکرات کا موقع ملا تو انہوں نے پنڈت نہرکو دھیمے مزاج کا ایک رہنما محسوس کیا لیکن بعد ازاں جب انہیں کشمیر پر رائے شماری پر عمل کرنے کا کہا جاتا تو وہ طرح دے کر نکل جاتے اور اپنے موقف پر پتھر کی طرح اڑجاتے۔ وہ غیر وابستہ تحریک کے چینی رہنما چو این لائی ، سویکارنو ، مصری صدر ناصر کے ساتھ بھی رہے لیکن امریکا کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ مدبرانہ دوستی کا کامیاب رشتہ رکھا۔۔ ایسے ہی ایک مثال جناب عصمت انونو کی یاد آتی ہے جب لاکھ کو شش کی برطانیہ کے دوسری جنگ کے ہیرو چرچل نے کہ ترکی جرمنی کے خلاف اس کو اڈے یا اس کی سفارتی محاذ پرحمائیت ہی کرے ، لیکن ترکی کے عصمت انونو نے دوسری جنگ عظیم میں پانچ سال تک کسی بلاک کی ذرہ بھر حمایت نہ کر کے ترکی کو دوسری جنگ عطیم کے منجھدار میں بچا کر لے گئے اور بڑے ملکوں جن کوہاتھی کہنا مناسب ہو گاکی لڑائی سے بچا لیا۔ شائد انونو کواتا ترک کی نصیحت اور سلطنت عثمانیہ کی ہزیمت یاد تھی یاد تھی کہ باسفورس کی بندرگاہ کسی متحارب ملک یا بلاک کو استعمال نہ کرنے نہ دینا، اگر استعمال کرنے دی تو مخالف فریق دشمنی میں آپ کو معاف نہیں کرے گا لیکن پاکستان کے ساتھ ہمیشہ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے اکثر حکمران امریکی اثرو نفوز کے آگے ڈھیر ہوتے گئے۔ ایسی ہی ایک مثال جنرل ضیا صاحب کی بھی ہے۔جنرل ضیا بھی اپنے پیشرو جرنیلوں یحییٰ خان ، ایوب خان کی طرح آسانی سے امریکی اثر کے آگے ڈھیر ہو گئے ، وہ اس میں اپنے اقتدار کو گیارہ سال تک محیط کر گئے لیکن امیریکا کے سامنے اپنی کم ہمتی اور افغانستان کی جنگ میں امیریکا کو انکار نہ کر سکنااور اقتدار کا لالچ انہیں اور پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں جھونک گیاجس کا خمیازہ ابھی تک روزانہ کی شہادتوں میں قوم آج بھی کفارہ ادا کر رہی ہے۔جنری ضیا کا یہ بیان رکارڈ پر ہے جب جونیجو کی حکومت نے افغانستان کی امیریکی مسلط کر دہ جنگ میں وہ بھی امریکا ہی کے کہنے پر افغانستان کی جنگ میں مذاکرات کر کے روس کو ،،فیس سیونگ،، دینےکی کو شش کی، کہ اب گورباچوف افغانستان کے جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے اپنی معیشت پر زیادہ بوجھ برداشت کرنے اس لئے بھی قابل نہ تھا کہ اس کی عالمی ذمہ ذاریاںاور امریکا کا ریگن کے د ور میں ،،سٹریتجک انیشٹو،، جس میں امریکا ایٹمی شیلڈ بنانے میں کامیاب ہو حکا تھا۔ یاذ رہے اس میں امیرا نے اس میں اربوں ڈالر جھونک ڈالے تھے تاکہ روس کہ مجبور کیا جا سکےکہ وہ اپنی سپر پاور کے کردار سے ہٹ جائے۔اور اس میں امریکا اپنی کامیاب معیشت ، ٹیکنالوجی کی ترقی اور کھلی عوامی جموریت اور پر کشش سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے طفیل کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ افغانستان کی جنگ کے اختتامی دنوں میں جنرل ضیا کو یہ کہنا پڑ گیا کہ کاش ہم افغانستان کی جنگ میں شامل نہ ہوتے ،یہ تو کولوں کی دلالی میں منہ کالا کرنے والی بات ہے۔ اسی جنگ افغانستان میں انیس سو چھہتر میں کسنجر خصوصی طور پر پاکستان آئے اور بٹھو کو افغانستان میں امریکی مداخلت میں مد کے لئے کئی گھنٹے مذاکرات کرتے رہے لیکن وزارت خارجہ کی دستاویزات میں واضح ہے کہ ذولفقار علی بٹھو نے کمال جرات سے نہ صرف اس نئی افغان جنگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا بلکہ اگلے ہی دن ایران کا دورہ رکھ لیا اور شہنشاہ ایران کو بھی اس بات پر قائل کر لیا کہ ایران بھی اس سلسلہ میں امریکی جنگ کا حصہ نہ بنے۔ افغان جنگ میں انکار کرنا بھٹو کو اقتدار سے محروم کرنے کی ایک بڑی وجہ بنی تھی۔ کبھی بھٹو نے اس ڈوبتی ہوی قوم کی نیہ کو پار لگانے کی کوشش اگر کی تو خود ہی جان کی بازی ہار گئے۔ ایسا گمان ہوا جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ ایسے گہرے پانیوں میں پاکستان کی کشتی کو جا پہنچا یا کہ وہ خود اور پاکستان دونوں ہی اس گہرے پانیوں کے سمندر میں دوسری بڑی سپر طاقتوں جو سیاست کے اس وسیع سمندر میں ویل جیسی مچھلیوں کی حیثیت رکھتی ہیں کےلئے خطرے کا باعث بنتے ہوئے نظر آنے لگے۔ کجا مشرقی پاکستان جو پاکستان کاآبادی کا چھ کروڑ سے زیادہ والا اکثریتی صوبہ تھا کی علیحدگی ہونے کے بعد مغرب پاکستان کو بھی اکہتر میں ایشیا کا مرد بیمار سمجھنے لگا تھا لیکن جب اسی مرد بیمار سے ایٹمی طاقت بننے کے خطرات مغرب کو محسوس ہوے تو انہوں نے اسی پاکستان پر ریڈ لائن لگا کر اسکو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا تھا جو بھٹو کی پھانسی سے شروع ہو کر، افغانستان میں ہمیں جنرل ضیا کے دور میں دھمکاکر شامل کرا کے آج تک دہشت گردی کی جنگ کی صورت میں ہمیں درپیش ہے۔ جاری ہے۔