پاکستان ترقی کے سفر پر



پاکستان جغرافیائی اعتبار سے خطے میں بڑی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ اس کے اردگرد بھارت، چین، ایران اور افغانستان واقع ہیں۔ تاہم افغانستان اور بھارت سے ہمارے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں سے جب پاکستان میں در اندازی ہوتی ہے تو پاکستان کو بھی ایکشن لینا پڑتا ہے اور جوابی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان کا زیادہ عرصہ دورِ آمریت میں گزرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری ادوار کا تسلسل نہ ہونے سے ہمارے معاشی حالات کبھی اچھے نہیں رہے۔ معاشی نظام کے اتار چڑھا۔ نے ملک میں متوسط اور مڈل کلاس طبقے کو بے حد متاثر کیا ہے۔ جہاں معاشی ابتری ہو وہاں امن کسی صورت نہیں آتا۔ ہر وقت بے چینی اور اضطراب کی کیفیت رہتی ہے۔
شکر ہے طویل دورِ آمریت کے بعد اب دورِ جمہوریت ہے اور پچھلی ایک دہائی سے اس کا تسلسل قائم ہے۔ مارکیٹ میں اب ایسی خبریں عام ہیں کہ معیشت میں استحکام آیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ لیکن معیشت کی مزید بہتری کے لیے ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ملکی استحکام کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے گروپس کی اجارہ داری ہے جو انتشار پیدا کرنے کے لیے فیک نیوز پھیلاتے ہیں۔ یہ فیک نیوز اکاﺅنٹ ہولڈرز ملک میں بھی ہیں اور ان کی بڑی تعداد ملک سے باہر بھی ان اکاﺅنٹس کو چلا رہی ہے۔ جس سے ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ 26 نومبر کو ڈی چوک میں پی ٹی آئی کا جو احتجاجی جلوس علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں پہنچا پھر جس طرح دونوں لیڈر ڈی چوک سے رفو چکر ہوئے، یہ کہانی کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ اس کہانی سے جڑی روداد آپ اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا پر پڑھ اور سن چکے ہیں۔ اضافی اور اہم بات یہ ہے کہ اس کہانی کو غلط رنگ دیا گیا اور فیک نیوز کے ذریعے کہا گیا کہ ڈی چوک پر قتل عام ہوا ہے۔ مظاہرین کی کافی تعداد سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنی ہے، ہلاک یا زخمی ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی کے مختلف ذرائع سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد مختلف بتائی جا رہی تھی۔ لطیف کھوسہ دو سو افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کر رہے تھے۔ علیمہ خان کے مطابق سینکڑوں افراد گولیوں کا نشانہ بنے۔ عمر ایوب یہ تعداد سو سے زیادہ بتاتے رہے جبکہ بیرسٹر گوہر نے مبینہ ہلاکتوں کی تعداد 12 بتائی۔ ایسی فیک نیوز نے ہر طرف ہیجان بپا کیے رکھا جس ملک میں اس طرح کا ہیجان پیدا ہو جائے ا±س کے اثرات لازمی طور پر معیشت پر جاتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جس کے رہنماﺅں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کس طرف جا رہا ہے۔ بس ا±ن کی خواہشات کی تکمیل ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی کو ڈی چوک میں جس ہزیمت اور جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا ا±سی کی خفت مٹانے کے لیے پارٹی رہنماﺅں نے مبینہ ہلاکتوں کی من گھڑت کہانی بیان کرنا شروع کر دی۔ سوشل میڈیا سیل کے مختلف اکاﺅنٹس سے بھی اس کی تشہیر ہونے لگی۔ کہاوت ہے ”اتنا جھوٹ بولو، اتنا جھوٹ بولو کہ سچ محسوس ہونے لگے“۔ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے بہت شور مچایا۔ اس ”پروپیگنڈا“ میں کوئی حقیقت ہوتی تو لو گ یقین بھی کرتے۔ نہ کوئی ایف آئی آر، نہ کوئی ثبوت، پھر کیسے مان لیا جائے کہ ڈی چوک میں ہلاکتیں ہوئیں لیکن اس جھوٹی اور منفی پروپیگنڈا مہم نے ملک کو اندرون ملک اور بیرون ملک جو نقصان پہنچایا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس طرح کی فیک نیوز پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ اس طرح کی من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈا مہم جوئی کی بیخ کنی ہوسکے۔
پاکستان کے لیے اچھی خبریں بھی ہیں، وہ یہ کہ بیرونی سرمایہ کار اب پاکستان پر اعتماد کرنے لگے ہیں۔ جن وفود نے بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں غیر ملکی دورے کیے۔ ا±ن کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے علاوہ چین کے سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان میں مختلف پراجیکٹس کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ان کے مابین ایم او یو پر دستخط بھی ہوگئے ہیں۔
زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ثابت کر رہا ہے کہ پاکستانی معیشت نے صحیح سمت میں اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ بہت جلد ہم ترقی کی نئی منازل کو طے ہوتے دیکھیں گے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرنے کے لیے بھی متعلقہ وزارتیں دن رات کوشاں ہیں۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔ شہباز شریف نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ عوام اور صنعتوں کو سستی بجلی مہیا کرنے کے لیے کئی منصوبے زیر تجویز ہیں جن پر جلد عمل درآمد کی تو قع ہے۔ ان منصوبوں کے آغاز سے معاشی حالات اور بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہونڈا اور نسان کمپنیاں بھی انضمام کے لیے تاریخی مذاکرات میں مصروف ہیں۔ یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے جب یہ مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہوں گے پاکستان کے لیے ترقی اور خوشحالی کی مزید نئی راہیں کھلیں گی۔پاکستان میں سیفائر الیکٹرانکس، سام سنگ کی تیاری اور ا±سے اسمبل کرنے کے لیے اپنی پیش رفت میں کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ گرین ٹری ہولڈنگز پاکستان میں 35 فیصد حصص کے لیے ٹینڈر کر رہی ہے۔ گرین فیلڈ ٹائر پروجیکٹ کے لیے بھی بیرونی فنانسنگ بینک 50.2 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔موجودہ حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ پاکستان میں فنانسنگ کیلئے جو منصوبے پیش کیے ہیں انھیں قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سطح کے حکو متی وفد نے 20 سے زیادہ سعودی سرمایہ کاروں کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ یہ پراجیکٹ شروع ہونے سے ناصرف بیرون ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے اعتماد بڑھے گا بلکہ جب وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری ہو گی تو اس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
اس وقت حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی کوششوں اور کاوشوں سے پوری عرب دنیا پاکستان کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے ذریعے پاکستان میں امن لائے۔ کسی قسم کا انتشار اور انتشاری تحریکوں کی پشت پناہی کر کے پاکستان کے امن کو خراب نہ کرے۔ یہ اس کے اپنے بھی مفاد میں ہے۔ اگرچہ 9 مئی کے مقدمات میں فوجی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر پی ٹی آئی کے 85 کارکنوں کو مختلف میعاد کی سزائیں سنا دی ہیں لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس بریفنگ سے پتا چلتا ہے کہ فوج 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ تک بھی پہنچنا چاہتی ہے۔ سب کو معلوم ہے 9 مئی کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما غیر ضروری بیان بازی کر کے معاملات کو نہ الجھائیں۔ بانی پی ٹی آئی اگر اپنی غلطیوں اور جرموں کا اعتراف کر لیں تو شاید ا±ن کیلئے معافی کا کوئی راستہ نکل آئے ورنہ ان کیلئے آگے مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن