اپنے گزشتہ کالم میں میں نے جو ود ہولڈنگ ٹیکس پر اعتراض اٹھائے تھے ان سے بہت سے دوستوں نے اتفاق کیا اور کچھ نے سوالات اٹھائے۔ سب سے بڑا سوال اور اعتراض یہ اٹھاْیا گیا کہ آپ کیسے ان پالیسیوں اور اصلاحات پر اعتراض اٹھا لیتے ہیں ، جنہیں عالمی مالیاتی اداروں کے انتہاء قابل ماہرین اپنی لیاقت اور مہارت سے تیار کرتے ہیں-
ان سب کو میں یہ بات کہتا ہوں کہ دیکھئے ، آج کی دنیا کمرشل دنیا ہے اور انویسٹر کو صرف اپنے نفع سے مطلب ہوتا ہے اور وہ اپنی انوسٹمنٹ کو محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات اٹھاتا ہے ، تو جو پالیسیاں ان اداروں کی طرف سے دی جاتی ہیں ان سے آپ کوء اور توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟
یہ تو ہمارے اداروں کا کام ہے کی اصطلاحات کے نام پر ایسے قوانین نہ متعارف کرواء جائیں جو عوام کی پریشانی کا باعث بنتے ھوں۔ ود ہولڈنگ ٹیکس بھی ایک ایسا ہی ٹیکس ہے جو پاکستان کی بزنس کمیونٹی کیلئے پریشانی کا باعث ہے ، بلکہ یہ بات میں بار بار دہراتا ہوں اور اپنے پچھلے کالم میں بھی دہراء تھی کہ یہ چھوٹے اور درمیانے تاجروں کو دستاویزی معیشت documented economyسے دور رکھنے کا باعث ہے۔
یہاں ایک اور بات کا بھی ذکر کرلیا جائے کہ اگرچہ پاکستان کی معیشت پر بے جا قرضوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے، مگر اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کا debt-to- gdp ratio 78%ہے۔ امریکہ کا 123% اور جاپان کا 255% ہے( ref:- www.imf.org www.worldeconomics.com))
یعنی معاشی اشاریے ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت قرض واپس کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔صورتحال اتنی بھی بری نہیں ہے جتنی ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ البتہ ، سالانہ بجٹ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ہماری آمدن ( direct and indirect taxes combined) تقریباً 19200 ارب ہے جس میں سے تقریباً 7300 ارب ہیں ( servicing Debt) کیلئے درکار ہیں ، باقی 1900 ارب سے 25کروڑ عوام کا ملک کیسے چلے گا؟
ہاں یہ ضرور ہے کہ قرض لیتے وقت ہمارے نمائندے آسان شرائط نہ منوا سکے اور یہ بڑی کوتاہی ہے، اب ہمیں ان اداروں سے قرض واپس کرنے والے معاہدوں پر ضرور bargain کرنی چاہیے اور مناسب سالانہ اقساط طے کر لینی چاہیں -اس سے نہ صرف معیشت سے غیر ضروری بوجھ ختم ہو گا بلکہ ہماری پالیسیاں بھی تاجر دوست اور عوام کو سبولت پہنچانے والی ہو جائیں گی۔ساتھ ہی ساتھ ہمیں اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اسلامی بینکنگ کے حوالے سے بھی بات کر لینی چاہیے کہ ہمارے موجودہ اور آیندہ لئے جانے والے قرضے ، اسلامی بینکنگ کے تحت ایڈجسٹ کئے جائیں -
اسلام ہمیں سود سے منع کرتا ہے اور اب اسلامی بینکنگ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں رائج ہو چکی ہے۔ Nations United میں اسکی قرارداد پیش کرنی چاہئے- برادر اسلامی ملکوں سے بھی مدد مل سکتی ہے- اس کام کے کرنے سے ہم اپنے رب کی عدالت میں سرخرو ہو جائیں گے۔