فرد واحد نے من مانی کرکے عدالتی نظام سبوتاژ کیا‘ اب کوئی پی سی او نہیں لائے گا : چیف جسٹس

راولپنڈی (این این آئی + آئی این پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ اےک فرد نے من مانی کرتے ہوئے غےر آئےنی طرےقے سے عدالتی نظام کو سبوتاژ کےا، وکلا سڑکوں پر آئے، مضبوط بار کا مطلب مضبوط عدلیہ ہے، فراہمی انصاف کیلئے وکلا کا متحرک کردار بہت اہم اور قابل ستائش ہے، عالمی سطح پر مختلف پیشہ وارانہ تعلیم کے باہمی امتزاج کا تصور تیزی سے پھیل رہا ہے، اصل مقصد مختلف پیشوں اور بنیادی مہارت رکھنے والے اساتذہ اور طالبعلموں کے اشتراک سے نیا علمی ماحول پیدا کرنا اور فروغ دینا ہے۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں راولپنڈی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا کےلئے ہفت روزہ تربیتی کورس بعنوان ”قانونی تعلیم“ کی تقریب تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ آغاز میں قانونی تعلیم کے تواترکے مو ضوع پر دو ایک ہفتہ تربیتی کورسز کے شرکا کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، جو کہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی نے لاءاینڈ جسٹس کمشن آف پاکستان کے تعاون سے منعقد کرائے ہیں۔ یہ میرے لئے نہایت خوشی کی بات ہے کہ سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب میں آپ کے درمیان موجود ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ 6 یوم کی قلیل مدت میں اچھی وکالت سے متعلقہ مختلف موضوعات پڑھائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ حصولِ تعلیم کا عمل بالخصوص وکلا برادی کےلئے رسمی سکول کے اختتام پر انجام کو نہیں پہنچتی بڑھتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کےلئے آدمی کو معاشرے کے نئے قوانین اور بدلتے رجحانات سے متعلق معلومات حاصل کرنی پڑیں گی، کئی دائرہ اختیارات میں وکلا کو قانونی تعلیم کے حصول ریاست کے بار ایسوسی ایشن منظم کرتی ہی۔ کچھ دائرہ اختیارات میں قانونی تعلیم کے اجرا کا عمل جس کو پروگرام پیشہ ورانہ ترقی کا اجرا بھی کہتے ہیں لازمی ہے۔ مضبوط بار کا مطلب ایک مضبوط عدلیہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی سطح پر مختلف پیشہ وارانہ تعلیم کے باہمی امتزاج کا تصور تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے پیچھے اصل مقصد مختلف پیشوں اور بنیادی مہارت رکھنے والے اساتذہ اور طالبعلموں کے اشتراک سے نیا علمی ماحول پیدا کرنا اور فروغ دینا ہے۔ اکیڈمی میں ہم نے اِس تصور کو وکلا کے اِن تربیتی پروگراموں میں اپنایا ہے۔ اِن مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے، فیڈرل یونیورسٹی آف لاءو جوڈیشل ایڈمنسٹریشن کا قیام زیرِ غور ہے۔ پاکستان میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قانون کی حکمرانی اور انصاف کی ترویج کےلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے، اور اِسی طرح قانونی پیشے کے معیار، بار اور بینچ کو مضبوط کرنے کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا ہے۔ آئینی علم اور روایات کی ترویج، ہم عصر معاملات کے حل کی مہارت دینے اور قانونی تعلیم اور انصاف کی فراہمی کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا ہے۔ جب ہم برصغیر میں جدید قانونی پیشہ کے ارتقائی دور کو دیکھتے ہیں تو یہ 1672ءکو ممبئی میں بننے والی سب سے پہلی برٹش کورٹ سے جا ملتا ہے۔ کچھ عرصے تک وکالت میں صنفی امتیاز رائج رہا، خواتین کو وکالت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ خواتین کی وکیل بننے کی اہلیت اور وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنے کےلئے قانون بنانے کی ضرورت تھی۔ آج اِس مجلس میں، میں خواتین وکلا کی ایک بڑی تعداد کو دیکھ سکتا ہوںجو اِس بات کا مظہرہے کہ معاشرے کے اِس طبقے نے وقت کے تقاضوں کو قبول کرتے ہوئے، آئینی حقوق سے پورا فائدہ اُٹھایا ہے۔ معاشرہ اور فراہمی انصاف کیلئے وکلا کا متحرک کردار بہت اہم اور قابل ستائش ہے۔ معاشرہ میں تبدیلی کیلئے وہ طاقتور محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ قانون کی حکمرانی کا علمبردار ہے۔ عام طور پر وکلا رائج الوقت قوانین کی تشریح اور ساتھ ہی ساتھ ان میں تبدیلیوں کی تجویز / رائے کے ذریعے اپنے سائلان / موکلان کی کامیابی کیلئے سخت محنت کرتے ہیں لہٰذا مفاد عامہ سے قطع نظر وہ اپنے سائل کے ذاتی مفاد کا دفاع کرتے ہیں۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ نامور وکلا نے مفاد عامہ کیلئے کوشش کی حتیٰ کہ برصغیر میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل اسی طبقہ کے ارکان نے نظریہ آزادی اور ایک الگ سر زمین کی تشکیل کو محسوس کیا اور اس کو عملی جامہ پہنایا۔ اس طرح انہوں نے بہت بڑی اجتماعی سماجی تبدےلی لے آئے جس کے نتےجے مےں اب ہم آزاد مملکت اور قوم کے طور پر پہنچانے جاتے ہےں ۔ وکلا کا عام کردار ےہ ہے کہ وہ اپنے موکل کی قانونی دلچسپےوں کو اجاگر کرے۔ اس طرےقے سے انکی تعلےمی قابلےت کا محور اپنا موکل ہوتا ہے۔ ےہ اس وقت تک نہےں ہو سکتا تھاجب تک وکلا سماجی تبدےلی کے دشوار راستے سے متاثر نہ ہوئے ہو ۔ اب وہ عوامی کردار ادا کرتے ہےں ۔ انہوں نے دوسروں کو سماجی تحرےک مےں شامل ہونے کےلئے منظم کےا۔ اس طرح کی تحرےکےں اےک اعلیٰ تعلےم ےافتہ لوگوں سے متوقع ہے۔ سماجی تبدےلی کےلئے وکالت کا نقطہ ارتکاز جمود کے خلاف لڑنا اور بے زبان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی تلافی کرنا ہے لوئس ڈی برانڈےز نے ان کو پےپلز لائر ز کے نام سے موسوم کےا ہے۔ وہ اخلاقی اقدار کے متحرکےن ہےں ، جنہوں نے سماجی تبدےلی کےلئے اےک تہذےبی شفٹ بنائی۔ ماہرےن کا نقطہ نظرےہ ہے کہ سماجی تبدےلی کی حد تک قانون کا استعمال وکلا کے اپنے اختےار مےں ہے کےونکہ قانون معاشرہ کی اقدار اور معےار کو ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمےں ماضی مےں زےادہ پےچھے جانے کی ضرورت نہےں ہمارے ملک مےں اےک فرد نے من مانی کرتے ہوئے اور غےر آئےنی طرےقے سے عدالتی نظام کو سبوتاژ کےا۔ ےہ تمام اخلاقی اقدار کی واضح اور کھلم کھلا مخالفت تھی۔ ےہ پاکستان کی عدالتی اور قانونی تارےخ مےں پہلی دفعہ اےسا ہوا کہ وکلا نے شدےد ردعمل کا اظہار کےا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ےہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ےہ تحرےک م¶کلےن کا مرکز نہےں تھی۔ مقصد صرف عدلیہ کی آزادی کو بحال کرنا تھا۔ اس تحریک کی انوکھی بات یہ تھی کہ یہ کسی بھی سیاسی قیادت کے بغیر تھی بلکہ سیاستدانوں نے اس تحریک کی پیروی کی اور اس میں شامل ہو گئے۔ میڈیا نے بھی اپنی طرف سے تحریک کی مکمل طور پر حمایت کی۔ یہاں میں ان ممتاز شخصیات کا نام لئے بغیر ریکارڈ پر موجود تبصرے کو فروغ دینا چاہوں گا کہ ”تحریک نے ساری پاکستانی نسل کو جگا دیا ہے جو کہ سوئی ہوئی تھی، تحریک کا وسیع تر پہلو وہ خواب ہے جو لوگوں کی آنکھوں میں حیثیت کی تبدیلی کی صورت میں سجا دیا گیا ہے، تحریک کو جانچا جا سکتا ہے پاکستانیوں کی ذہنی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے جو ہم نے پیدا کی ہیں۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا تحریک لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی لائی، فرد واحد نے من مانی کرتے ہوئے اور غےر آئےنی طرےقے سے عدالتی نظام کو سبوتاژ کےا، پاکستان کی عدالتی اور قانونی تارےخ مےں پہلی دفعہ اس کے خلاف وکلا کا شدےد ردعمل سامنے آیا، وہ سڑکوں پر نکل آئے، عام آدمی سمجھ گیا کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب کیا ہے، آئندہ کے لئے پی سی او کوئی نہیں لائے گا، بار اور بنچ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، وکلا پیشہ وارانہ اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے معاشرے میں پیشے کی عزت میں اضافہ اور انصاف کی فراہمی میں اپنی قیمتی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں، اس کے لئے قوم امیدیں رکھتی ہے۔