ضوفشاں ذوالفقار
zoyazulfiqar616@gmail.com
تاریخ کے اوراق کو کبھی بھی نظر انداز نہیں جاسکتا۔ نوجوان نسل کی نظریاتی، علمی اور فکری پرورش کے لیے بھی ماضی سے واقفیت اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔جب تک نسلِ نو کی نظریں ماضی پر نہیں ہوںگی، انہیں مستقبل میں آنے والے مسائل کا ادراک بھی نہیں ہو گا اس لیئے کہا جاتا ہے کہ جو قوم اپنے ماضی سے واقف نہیں ہوتی وہ حال اور مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکتی،نوجوان نسل کو ماضی سے جوڑے رکھنے اور وطن عزیزکے لئے قربان ہو نے والے بہادر فوجیوں اور پاک فوج کی جدوجہد سے آگاہی کیلئے پاکستان آرمی میوزیم راولپنڈی کا قیام24 اکتوبر 1961 میں عمل میں لایا گیا ، پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑی یہ عمارت تاریخی و عسکری ورثے کی محافظ ہے۔ تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیا جا ئے توپتا چلتا ہے کہ عجائب گھروں کی ابتدا سولہویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ پہلے پہل اطالوی شہزادیوں نے اپنے نوادرات کی نمائش کرکے اس کا آغاز کیا۔ بعد ازاں یورپی حکمرانوں کا بھی تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ انہوںنے عجائب گھر بنائے تھے جس میں اسلحے کا وہ ساز وسامان محفوظ رکھتے تھے جو ان کے آباﺅ اجداد کی میراث تھی۔ اس زمانے کے عجائب گھروں تک عام لوگوں کی رسائی نہ تھی، صرف بڑے گھرانوں کے ممتاز لوگوں کو ہی یہ شرف بخشا جاتاتھا۔ بعد ازاں فوجی عجائب گھروں کے قیام کا خیال اسی تاریخ سے عمل میں آیا اوریوں یہ سلسلہ چلتے ہو ئے عہد رواں تک پہنچ گیا۔پاکستان آرمی میوزیم راولپنڈی کے قیام کے بعد یہ میوزیم اپنی نوادرات کے ذخیرے کی بدولت دنیا اور خاص طور پر برطانوی دولتِ مشترکہ کے ملکوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ اس میوزیم میںنایاب اشیا کا بے تحاشا ذخیرہ موجودتھااور اب اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ راولپنڈی کا آرمی میوزیم اپنے اندر کئی فتوحات اور قربانیوں کی نشانیاں سموئے ہوئے ہے، اس میوزیم کا مقصد عوام کو پاک فوج کی تاریخ سے روشناس کروانا بھی ہے۔اور ان قربانیوں کی یاد دلانا جو اس ملک کی بقا و سلامتی کیلئے دی گئیں ہیں۔ میوزیم راولپنڈی میں موجود نایاب اشیا کے مجموعوں میں چین کے''مِنگ''خاندان کے زمانے کا چینی سے بنا ہوا پیالہ، ایران کے بادشاہ'''نادر شاہ''کی تلوار اور بخارا کے آخری حکمران امیرعبدالملک کا ''خنجر'' شامل ہے اس کے علاوہ سیداحمدشہید بریلوی کے مجاہدین کے'' پرچم''، سلطان ٹیپو شہید کے ''تیر اور کمان'' بھی محفوظ رکھے گئے ہیں۔ یہ یقینا وہ اثاثہ جات تھے جن پر برصغیر کے مسلمان فخر کرتے تھے۔اس میوزیم میں دو ہزار سے زائد ایسی اشیا رکھی گئیہیں جو ان تبدیلیوں کو ظاہر کرتی ہیں جو گیارہویں صدی کے دور سے جنگی طریقوں میں اس وقت تک زیر استعمال ہوتی تھیں۔ ان اشیا سے جنگ کے طریقوں میں ارتقا ء کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان اشیا میں وہ تلواریں بھی شاملہیں جو چنگیز خان کے دور میں تیار کی گئی تھیں۔اس عجائب گھر میںزمانہ قدیم کی فوجی وردیاں اور اسلحہ کے علاوہ رجمنٹس کے پرانے امتیازی نشانات ، بیج ، تلواریں اور رائفلیں بھی موجود ہیں۔میوزیم میں یوں تو بے شمار دلچسپ چیزیں موجود ہیں لیکن ان میں نمایاں دلچسپی کی حامل چیزوں میں 13انچ دہانے کی توپ کا ایک گولہ تھا جو 88پونڈ وزنی تھی یعنی ایک من سے بھی زیادہ۔ اس کے علاوہ ایک مزل لوڈنگ رائفل جو 9 فٹ اونچی اور اتنی وزنی کہ ایک ہاتھ سے اٹھائی بھی نہیں جاسکتی۔ خیال ہے کہ اسے توپ کے طور پر استعمال کیاجاتا ہوگا۔ 1877 میں افغانستان کی دوسری جنگ میں پٹھانوں کے زیرِ استعمال رہنے والی قدیم طرز کی بندوق بھی خاص توجہ کا مرکزہیں۔ داخلی دروازے پر صوبیدار خدا داد کا مجسمہ اپنی تمام تر شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ ہے۔وہ جنوبی ایشیا کے پہلے مسلمان سپاہی تھے جنہیں جنگ عظیم اول میں حیرت انگیز بہادری کے جوہر دکھانے پر وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا۔ میوزیم کے باہر تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے استعمال شدہ فوجی گاڑیاں اور ٹینک نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔ ان میں پاک آرمی کے زیر استعمال اولین ٹینک سے لے کر آج تک کے ٹینک شامل ہیں۔جس میں فیرٹ سکاﺅٹ کار ، ایم۔ 4 اسٹیورٹ ،ایم فوراے۔1شرمن اور ایم۔ 8 4ٹینکوں کے علاوہ فیلڈ اور اینٹی ایئرکرافٹ گنیں ، ہوٹرز، ایئر کرافٹ،انجینئرنگ کا سازوسامان اور جیپیں موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک چیزیں دورانِ جنگ قبضے میں لی گئیں۔ تین کمانڈر انچیفس کے زیر استعمال 1956 ماڈل کی اس وقت کی لگڑری کار بھی یہیں موجود ہے۔گراونڈ فلور کی لابی سے آغاز کریں تو 1947 سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم اور سابق آرمی چیفس کی ٹائم لائن کو ترتیب سے سجایا گیا ہے۔جہاںلگی تصاویر پاکستان کی مختصر تاریخ ،دورِ حکومت ،سربراہ مملکت، وزرائے اعظم اورکمانڈر ان چیفس/چیف آف دی آرمی سٹاف کے کلیدی کارناموں پر روشنی ڈالتی نظر آتی ہیں۔آرمی میوزیم کی 2 منزلہ عمارت میں 1948، 1965 اور1971 کی جنگوں کی مختلف مجسموں کے ذریعے منظرکشی کی گئی ہے۔ اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ لڑی جا رہی ہو ،گولیوں کی گھن گرج کے ا ماحول کا ہم بھی ایک حصہ ہوں اور ایسے میں اپنے بہادر فوجیوں پر مزید فخر محسوس ہو تا ہے جنہوں نے اس وطن کی حفاطت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔میوزیم منگل کے علاوہ ہفتے کے باقی تمام دن صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک کھلا رہتا ہے۔ پاک آرمی میوزیم لال کرتی سی ایس ڈی کے قریب واقع ہے۔ سیاح اپنی گاڑیاں سی ایس ڈی میں پارک کرسکتے ہیں جہاں قریب میں آرمی میوزیم کا داخلی دروازہ ہے۔ سویلین حضرات اپنا قومی شناختی کارڈ دکھانے کے بعد میوزیم کی سیر کرسکتے ہیں جبکہ آرمڈ فورسز سے منسلک تمام افراد اپنے سروس کارڈ دکھانے کے بعد میوزیم کی سیر کرسکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کیلیے میوزیم کی انٹری فری رکھی گئی ہے۔سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے دورے کے لئے تعلیمی ادارے کا سربراہ اجازت نامے کا خط لکھتا ہے جس میں طلبا کی تعداد، دن اور وقت کا ذکر ہوتا ہے۔ میوزیم انتظامیہ خط میں مذکور دن اور وقت کے مطابق اجازت نامے سے متعلقہ ادارے کو آگاہ کردیتی ہے اور مقررہ تاریخ کو طلبہ کو گائیڈز کی مدد سے سیر کروائی جاتی ہے۔پاکستان آرمی میوزیم راولپنڈی نے وقت کے ساتھ ساتھ تیز ی سے ترقی کی اور ہر دور کے حساب سے اس کی ترجیحات تبدیل ہوتی گئیں،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ میوزیم کو منظم تاریخی ترتیب میں پیش کیاجائے تا کہ یہ سیاحوں کے لئے مزید دلچسپی،کشش اور معلومات کا باعث بن سکے۔ چنانچہ 2009میں کوارٹر ماسٹر جنرل نے پاکستان آرمی میوزیم کی تعمیر ِ نو کی ذمہ داری آرمی ہیرٹیج فاﺅنڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر پاک آرمی میوزیم کو سونپی تاکہ میوزیم کوتخیلاتی انداز میں جدیدخطوط پر استوار کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ملکی شہرت کے حامل ماہر ِ تعمیرات، اندرونی تزئین وآرائش کے ماہرین اور مواصلاتی ماہرین پرمشتمل ایک تجربہ کارٹیم کی خدما ت حاصل کی گئیں۔ میوزیم کا باقاعدہ افتتاح 26 نومبر2013میں کیا گیا۔اس میوزیم میں نہ صرف ماضی کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ میوزیم بے شمار معلومات اور دلچسپی سے بھرپور مواد رکھتا ہے یہ تاریخی آرمی میوزیم نہ صرف شہدا کی قربانیوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ میوزیم میں پاک فوج کی عسکری تاریخ، فتوحات اور ورثے کو بھی قریب سے جاننے کا موقع دیتا ہے !!